Maktaba Wahhabi

171 - 292
میں حضرت عاصم بھی تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کو بعض روایات میں چھ آدمیوں کو ان کے ساتھ کر دیا۔ جن میں حضرت عاصم بھی تھے راستہ میں جا کر ان لے جانے والوں نے بدعہدی کی اور دشمنوں کو مقابلے کے لیے بلایا جن میں دو سو آدمی تھے۔ اور ان میں سے سو آدمی بہت مشہور تیر انداز تھے اور بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو مکہ والوں کی خبر لانے کے لیے بھیجا راستہ میں بنو لحیان کے دو سو آدمیوں سے مقابلہ ہوا۔ یہ مختصر جماعت دس آدمیوں کی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر ایک پہاڑی پر جس کا نام فدفد تھا چڑھ گئی۔ کفار نے کہا کہ ہم تمہارے خون سے اپنی زمین رنگنا نہیں چاہتے اور ترکش سے تیر نکال کر مقابلہ کیا۔ حضرت عاصم نے ساتھیوں سے جوش سے کہا کہ تم سے دھوکہ کیا گیا ہے مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں شہادت کو غنیمت سمجھو۔ تمہارا محبوب تمہارے ساتھ اور جنت کی حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ یہ کہہ کر مقابلہ کیا اور جب نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار سے مقابلہ کیا۔ مقابلہ کرنے والے کفار کا مجمع کثیر تھا۔ آخر شہید ہوئے اور دعا کی کہ یا اللہ ہمارے رسول پر اس قصہ کی خبر کر دے۔ چنانچہ دعا قبول ہوئی اور اس وقت اس کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگیا، اور چونکہ عاصم بھی سن چکے تھے کہ سلافہ نے میرے سر کی کھوپڑی میں شراب پینے کی منت مانی ہے اس لیے مرتے وقت دعا کی کہ یا اللہ میرا سر تیرے راستہ میں کاٹا جا رہا ہے۔ تو ہی اس کا محافظ ہے وہ دعا بھی قبول ہوئی اور شہادت کے بعد جب کافروں نے سر کاٹنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا اور بعض روایتوں میں ہے کہ بھڑوں کا ایک غول بھیج دیا، جنہوں نے ان کے بدن کو چاروں طرف سے گھیر لیا، کافروں کو خیال تھا کہ جب یہ رات کے وقت اڑ جائیں گیں تو سر کاٹ لیں گے مگر رات کو بارش آئی تو ان کی نعش کو بہا لے گئی۔ اس طرح سات آدمی یا تین آدمی شہید ہوئے ۔ غرض تین باقی رہ گئے جن میں حضرت حبیب اور زید بن وثنہ اور عبداللہ بن طارق تھے۔ ان تینوں حضرات سے انہوں نے عہدوپیمان کیا کہ تم نیچے آجاؤ ہم تم سے بدعہدی نہیں کریں گے۔ یہ تینوں حضرات نیچے اتر آئے اور نیچے اترنے پر کفار نے ان کی کمانوں کی تانت اتار کر ان کی مشکیں باندھ دیں۔ حضرت عبداللہ بن طارق
Flag Counter