Maktaba Wahhabi

156 - 292
ہوا مجھے کچھ تھوڑا سا کام تھا میں نے کہا خیر میں کل جاملوں گا دو تین روز اس سستی اور تذبذب میں گزر گئے اب لشکر اتنا دور نکل گیا کہ اس سے ملنا مشکل ہوگیا، مجھے صدمہ تھا کہ کیا ہوگیا۔ میں ایک روز گھر سے نکلا مجھے ان منافقین کے سوا جو جھوٹ موٹ کرنے کے عادی تھے یا جو معذور تھے اس میں کوئی نہ ملا۔ یہ دیکھ کر میرے تن بدن کو رنج اور غم کی آگ لگ گئی یہ ایام میرے اسی طرح گزر گئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔ اب میں حیران تھا کہ کیا کروں اور کیا کہوں اور کیونکر اللہ کے رسول کے عتاب سے بچوں۔ لوگوں نے بعض حیلے بہانے بتائے۔ مگر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ نجات سچ ہی سے مل سکتی ہے بالآخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور تبسم فرمایا۔ تبسم بھی خشم آمیز تھا۔ میرے تو ہوش اس وقت جاتے رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کعب تم کیوں رہ گئے ، کیا تمہارے پاس کوئی سامان مہیا نہ تھا؟ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے پاس تو بہت کچھ تھا میرے نفس نے مجھے غافل بنایا۔ کاہلی نے مجھ پر غلبہ کیا شیطان نے مجھ پر حملہ کیا اور مجھے حرمان و خذلان کے گرداب میں پھینک دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے گھر ٹھہرو اور حکم الٰہی کا انتظار کرو۔ بعض لوگوں نے کہا دیکھو اگر تم بھی کوئی حیلہ بنالیتے تو ایسا نہ ہوتا میں نے کہا وحی سے میرا جھوٹ کھل جاتا۔ اور پھر کہیں کا بھی نہ رہتا۔ معاملہ کسی دنیا دار سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے ساتھ ہے میں نے دریافت کیا کہ جو حکم میرے لیے ہوا ہے کسی اور کے لیے بھی ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ہلال بن امیہ کے ساتھ ہوا اور مرارہ بن ربیع کی بھی یہی حالت ہے۔ یہ سن کر مجھے تسلی ہوئی کہ دو مرد صالح اور بھی مجھ جیسی حالت میں ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی مسلمان ہمارے ساتھ بات چیت نہ کرے اور نہ ہمارے پاس آکر بیٹھے اب زندگی اور دنیا ہمارے لیے وبال معلوم ہونے لگی۔ ان دنوں ہلالؓ اور مرارہ رضی اللہ عنہ تو کبھی گھر سے باہر نہ نکلے کیونکہ وہ بوڑھے بھی تھے لیکن میں جوان اور دلیر تھا گھر سے نکلتا مسجد نبوی میں جاتا۔ نماز پڑھ کر مسجد مبارک کے ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت بھری نگاہ اور گوشہ چشم سے مجھے دیکھا کرتے۔ میری شکستگی ملاحظہ
Flag Counter