Maktaba Wahhabi

131 - 292
کیا اور نہ ہی آخرت پر ترجیح دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ صبر و شکر کرنے والے تھے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیا کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ ایک دن بھوکا رہ کر گزاریں گے اور دوسرا دن سیر ہو کر، جب بھوکا رہیں گے تو اللہ کی عاجزی اپنائیں گے اور جب سیر ہو کر کھائیں گے تو شکر کریں گے۔[1] صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جو کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے روٹی کا ٹکڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کہا: موٹے آٹے کی روٹی پکائی تھی جسے کھانے کو جی نہیں چاہ رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارا ابو تین دن سے یہ آٹا کھا رہا ہے۔‘‘[2] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید مشقت کا صحابہ کرام نے شدید مشقت کا شکوہ کیا اور بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا دکھایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ ابو حاتم بن حبان نے ان احادیث کو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو رد کرنے میں انتہائی مبالغے سے کام لیا ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبے کے منافی ہیں، یہ ان کا وہم ہے۔ بلکہ یہ کیفیت آپ کے رتبے کو بڑھا نے اور بعد میں آنے والے خلفاء اور بادشاہوں کے لیے عبرت ہے۔ گویا کہ ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت کے بارے میں مروی تمام احادیث پر غور و فکر نہیں کیا۔ حالانکہ یہ صدقے کے بڑے دلائل میں سے ہیں۔ اگر اللہ کے دشمن یہ کہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہت کے لیے کیا تو انھیں جواب دیا جائے گا کہ اگر ایسی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بادشاہوں جیسی ہوتی، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرعہ یہودی کے پاس تھوڑے سے کھانے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔
Flag Counter