Maktaba Wahhabi

117 - 292
ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا میں اجر چاہتا ہے اور آخرت پر ایمان نہیں لاتا۔ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر کے مطابق یہ کفار کے بارے میں ہے۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’یہ آیت ریاء کاروں کے بارے میں ہے۔‘‘ امام ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو مومن بغیر تقویٰ کے عمل کرے اسے اس کا اجر دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ امام فراء رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ جو مسلمان اپنے اعمال کی وجہ سے دنیا کا اجر چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں عطا کر دیتا ہے اور یہی قول راحج ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اپنے عمل سے صرف دنیا چاہتا ہے وہ بالکل مومن نہیں ہے کیونکہ نافرمان اور فاسق جتنے بھی بڑے نافرمان کیوں نہ ہوں وہ عمل اللہ ہی کے لیے کرتے ہیں اور جو شخص اللہ کی رضا کے لیے عمل نہیں کرتا بلکہ دنیا کے لیے کرتا ہے وہ مومن نہیں۔ شاید یہی وہ معنی ہے جو معاویہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کا سمجھا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے استدلال کیا جس میں قاری قرآن، نمازی اور صدقہ کرنے والے سے جہنم کی آگ کے بھڑک پائے جانے کا تذکرہ ہے۔ جیسا کہ سب سے بہترین لوگ مخلوق میں سے انبیاء، صدیقین شہداء اور نیک لوگ ہیں اور بدترین لوگ وہ ہیں جو ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان میں سے ہوتے نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’قیامت کے دن میری امت تین جماعتوں کی صورت میں آئے گی، ایک گروہ اللہ کی عبادت دنیا کے لیے کرتا تھا، دوسری جماعت وہ ہوگی جو ریاء کاری اور دکھلاوے کے لیے اللہ کی عبادت کرتے تھے، تیسری وہ جو اللہ کی رضا مندی اور آخرت کے لیے عبادت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پہلی جماعت سے پوچھے گا میری عزت و جلال اور مرتبے کا واسطہ ہے، تم کس لیے میری عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: دنیا کے لیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں اسے قبول نہیں کرتا اور انھیں جہنم میں ڈال دے گا۔ دوسری جماعت سے سوال کرے گا وہ کہیں گے دکھلاوے اور ریا کاری کے لیے، اللہ تعالیٰ فرمائيں گے: میں قبول
Flag Counter