Maktaba Wahhabi

224 - 236
الزوائد:۱؍۱۱۹) یہی بات تہذیب میں امام احمد رحمہ اللہ سے بھی نقل کی گئی ہے۔[1] یہ روایت ان تینوں میں سے کسی نے بیان نہیں کی،لہٰذا ضعیف و کمزور ہے۔دوسرے یہ کہ حماد مدلس بھی ہے،اگرچہ سفیان کے درجۂ تدلیس میں ہیں،جیسا کہ حافظ ابن حجر کی’’طبقات المدلّسین‘‘کے حوالے سے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے’’ابکار المنن‘‘(ص:۱۷۷) میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس نے یہ اثر بھی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے اور مدلس کی مُعَنْعَن روایت صحیح نہیں ہوتی۔ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے امام ابن ابی حاتم کی کتاب المراسیل سے امام عبدالرحمان بن مہدی کا قول بھی نقل کیا ہے،جس کی رو سے نخعی رحمہ اللہ کا علقمہ رحمہ اللہ سے سماع ہی ثابت نہیں،لہٰذا مرسل ہونے کی وجہ سے یہ اثر صحیح نہ ہوا،جب کہ حماد رحمہ اللہ ہی کے بارے میں یہ بات بھی ذکر کی جاچکی ہے کہ ’’جزء القراءة‘‘امام بخاری میں ان سے فاتحہ خلف الامام ثابت ہے اور وہ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا عمل بھی یہی بتاتے ہیں۔جیسا کہ فریقِ اول کے مویّد آثار میں اثرِ دوم انھیں حضرت حماد کا ہی اثر ہے۔ 3۔ حضرت علقمہ سے ایک اثر مصنف عبد الرزاق میں بھی مروی ہے،جس میں ہے: ’’وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِيْ یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِیَٔ فُوْہُ أَحْسِبْہٗ قَالَ:تُرَاباً أَوْ رَضْفاً‘‘[2] ’’مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے قراء ت کرے اس کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اس کا منہ مٹی یا گرم پتھر سے بھر دیا گیا ہو۔‘‘ لیکن ایک راوی اسحاق مرسل ہونے اور اس کا علقمہ سے سماع بھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اثر بھی ضعیف و منقطع ہے۔
Flag Counter