Maktaba Wahhabi

220 - 236
غرض بقول علامہ لکھنوی اس مسئلے میں اجماعِ سکوتی ہے نہ اجماعِ صراحتی اور نہ ہی اجماعِ اکثری،اور اجماعِ اکثری کی حقیقت بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور جمہور اہلِ علم منعِ قراء ت کے بجائے وجوبِ قراء ت کے قائل و فاعل اور آمر رہے ہیں،جیسا کہ سنن ترمذی میں امام صاحب نے بھی نقل کیا ہے،وہ سری اور جہری نماز میں ہو یا صرف سری نمازوں میں یا پھر جہری نمازوں کے سکتاتِ امام میں،چنانچہ امام ترمذی لکھتے ہیں: ((وَقَدِ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِيْ القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ،فَرَأَیٰ أَکْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبيِّ ﷺ وَ التَّابِعِیْنَ وَ مَنْ بَعْدَہُمْ القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ)) [1] ’’قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے بارے میں اہلِ علم کا اختلاف پایا جاتا ہے،لیکن صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد والوں میں سے اکثر اہلِ علم قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں۔‘‘ بلکہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ فقہائے کوفہ کے ترکِ قراء ت والے مسلک پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بلا اختلاف کسی بھی صحابی کا کوئی اثر ثابت نہیں،جس کا اثر ممانعت میں وارد ہے صحیح یا ضعیف،اُسی صحابی سے صحیح تر اثر میں قراء ت بھی ثابت ہے،سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے،یہ بھی ان کے علم کی حد تک ہے،ورنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی ہر دو طرح کے آثار ملتے ہیں،ممانعت کے بھی اور قراء ت کے بھی۔ اب بھی اگر اجماعِ صحابہ کے دعوے پر اصرار کیا جائے تو پھر وہ اجماع بھی عجیب ہی ہے جس کی حالت یہ ہے کہ اکثر اس میں شامل ہی نہیں یا کم از کم صحابہ کی ایک جماعت
Flag Counter