گیا تو انھوں نے فرمایا:
’’إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُہٗ قِرَائَۃُ الْإِمَامِ،وَ إِذَا صَلّٰی وَحْدَہٗ فَلْیَقْرَأْ‘‘
’’تم میں سے جب کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے امام کی قراء ت ہی کافی ہے اور جب وہ اکیلا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ قراءت کرے۔‘‘
مزید وہ بیان فرماتے ہیں:
’’وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[1]
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قراء ت نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
موطا امام محمد میں ایک اور طریق سے مروی ہے:
’’کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[2]
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قراء ت نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
سنن کبریٰ اور’’کتاب القراءۃ‘‘بیہقی میں ہے:
’’کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ جَہَرَ أَوْ لَمْ یَجْہَرْ،وَ کَانَ رِجَالٌ أَئِمَّۃٌ یَقْرَأُوْنَ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[3]
’’وہ امام کے پیچھے جہری و سری نماز میں قراء ت نہیں کرتے تھے،جب کہ دیگر ائمہ کرام(صحابہ میں سے اہلِ علم لوگ) امام کے پیچھے قراء ت کیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ ا ثر مجمل ہے،جب کہ انہی سے مروی دوسرے آثار
|