Maktaba Wahhabi

207 - 236
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل یہ رہا ہے کہ وہ امام کے پیچھے(خصوصاً سری نمازوں میں) قراء ت کیا کرتے تھے،جیسا کہ فریقِ اول کے تائیدی آثارمیں سے اثرِ سوم ذکر کیا جاچکا ہے اور اس اثر کی سند بھی صحیح ہے،لہٰذا یہ غیر اہلِ علم کے سے انداز کا اثر اس کا کیا مقابلہ کرے گا؟ موطا امام محمد(ص:۹۴) میں ایک اثر وہ بھی ہے جس کی رو سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سری و جہری کسی نماز میں قراء ت نہیں کرتے تھے،لیکن وہ سخت ضعیف ہے اور دوسری نمازوں میں قراء ت کرنے کا پتا دینے والے صحیح اثر کے خلاف بھی ہے۔[1] البتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بعض آثار صحیح اسناد سے بھی مروی ہیں،جن میں سے ایک تو ان سے دو طریق سے بیہقی،مصنف ابن ابی شیبہ،طحاوی،موطا امام محمد،مصنف عبد الرزاق اور معجم طبرانی کبیر میں ہے،جس میں حضرت ابو وائل رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا میں امام پیچھے قراء ت کر سکتا ہوں تو انھوں نے جواب دیا: ’’اِنَّ فِيْ الصَّلَاۃِ شُغْلاً،سَیَکْفِیْکَ قِرَائَۃُ الْإِمَامِ‘‘[2] ’’یہ نماز میں مشغولیت ہو گی،آپ کو امام کی قراء ت ہی کافی ہے۔‘‘ یہ اثرسند کے اعتبار سے تو صحیح ہے،لیکن اس کا تعلق جہری نمازوں سے ہے،کیوں کہ سری نمازوں میں تو ان سے قراء ت خلف الامام صحیح سند سے ثابت ہے،جیسا کہ فریقِ اول کی تائید میں ذکر کیے گئے آثار میں سے اثرِ سوم شاہد ہے،اسی طرح ’’جزء القراءة‘‘امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض دیگر کتب میں ایک اور اثر میں حضرت
Flag Counter