Maktaba Wahhabi

156 - 236
فرماتے تھے اور یہی مسنون بھی ہے۔ہر پیش امام کو یہ سنت پیشِ نظر رکھنی چاہیے اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان في علوم القرآن‘‘میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ ترتیلِ قرآن کا معنی ہی تجوید الحروف اور معرفتِ وقوف قرار دیتے تھے،چنانچہ ان کا قول ہے: ’’التَّرْتِیْلُ تَجْوِیْدُ الْقُرْآنِ وَمَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ‘‘[1] ’’ترتیل کا معنی ہے تجوید الحروف اور وقوف کی پہچان۔‘‘ آگے امام بیہقی رحمہ اللہ کی شعب الایمان اور دیگر علما کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہر ہر آیت پر وقف کرنا افضل ہے۔اور’’إرواء الغلیل‘‘میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے شیح ابو عمرو الدانی کے حوالے سے لکھا ہے کے ائمہ سلف اور قرائے کرام کی ایک جماعت ہر ہر آیت پر وقف کرنے کو مستحب سمجھتی ہے۔[2]ق حتی کہ محتاط،درویش مزاج اور صوفی منش علمائے احنافِ دیو بند کا بھی اسی پر عمل رہا ہے کہ ہر ہر آیت پر وقف کیا جائے،چنانچہ مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز علامہ قاضی محمد زاہد الحسینی کے ماہانہ درسِ قرآن کے حوالے سے ما ہنامہ’’خدام الدین‘‘کی اشاعت بابت 25 دسمبر 1964ء میں لکھا ہے: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سورت فاتحہ پڑھتے تو ہرہر آیت پر وقف فرماتے یا سکتہ فرماتے۔وجہ یہ تھی کہ جب بندہ ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ پڑھتا ہے تو اللہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی۔مولانا حسین احمد مدنی اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ہر
Flag Counter