Maktaba Wahhabi

147 - 236
تو تم نے لغو کام کا ارتکاب کیا۔‘‘ اس کے باوجود فقہائے احناف نے لکھا ہے کہ جب امام یہ ارشادِ الٰہی پڑھے: ﴿ إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾(الأحزاب:3) ’’بلاشبہہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں۔اے ایمان والو!تم بھی نبی پر درود و سلام پڑھو۔‘‘ اس وقت سننے والوں کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنا چاہیے،یعنی’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘یا’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ۔۔۔الخ‘‘یا درود و سلام کا کوئی بھی مسنون صیغہ پڑھنا چاہیے،لیکن وہ بلند آواز سے نہیں،بلکہ آہستگی سے ہو اور یہ محض فکر و خیال اور تدبر و تفکر سے بھی نہیں،بلکہ باقاعدہ زبان ہلا کر ہونا چاہیے،جسے سراً یا فی النفس قراء ت کہا جاتا اور کہا گیا ہے جس کی تفصیل ہم کتبِ فقہ حنفیہ کے حوالے سے فریقِ اول کے دلائل میں سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے وضاحتی الفاظ: ’’اقْرَأْ بِہَا فِيْ نَفْسِکَ‘‘کی شرح میں بیان کر چکے ہیں جس کے لیے شرح وقایہ،ہدایۃ،کفایۃ،رمز الحقائق شرح کنز الحقائق،فتح القدیر،شرح ہدایۃ،بنایۃ،مراقی الفلاح،کتاب القراءة بیہقي،شرح مسلم نووي اور تفسیر جلالین وغیرہ کے ذکر کیے گئے مقامات کی مراجعت کی جا سکتی ہے اور جب خطبہ جمعہ سننے والے کے بارے میں کتبِ فقہ حنفیہ میں لکھا ہے: ’’وہ دو امر کا پابند ہے:سننے اور خاموش رہنے کا اور بوقتِ سماعت ﴿ صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ درود و سلام پڑھنے کا۔اور جب سامعین آہستگی سے درود و سلام پڑھیں گے تو خطبہ سننے میں کچھ خلل بھی واقع نہیں ہو گا اور دونوں
Flag Counter