Maktaba Wahhabi

136 - 236
رائج ہونا ضروری ہے اور ناسخ کے لیے مؤخر ہونا لازمی ہے،سو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کون سی احادیثِ مرفوعہ یا آثارِ مقبولہ ہیں،جن سے پتا چلے کہ یہ آیت پانچ نمازیں فرض ہونے کے بعد نازل ہوئی ہے۔اگر یہ ثابت ہو جائے تو آیتِ مذکورہ کو ناسخِ قراء تِ مقتدی،خواہ جہراً ہو یا سراً،قرار دے سکتے ہیں۔پھر بھی﴿وَأَنصِتُوا ﴾ سے مقتدی کی سری قراء ت کا منسوخ ہونا محلِ تامل رہے گا،مگر جہاں تک تلاش کیا گیا،اس آیت کا نزول افتراضِ صلاۃِ خمسہ کے بعد نہیں ہوا،بلکہ اس سے قبل نازل ہونا بقرائن و شواہد(مذکورہ سابقہ) ثابت ہوتا ہے تو پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت مقتدی کی سری قراء ت کے لیے بھی ناسخ ہے،کیا مقدم النزول آیت کسی حکم مؤخر الافتراض کے لیے ناسخ ہو سکتی ہے؟ کوئی منصف فہیم اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔‘‘ آگے الفرقان کے حنفی مؤلف لکھتے ہیں: ’’سخت تعجب ہے کہ بہت سے اکابر علمائے(احناف) جو علومِ دینیہ میں بحرِ زخارتھے،کیوں اس امر کے پیچھے پڑے کہ اس آیت سے نماز جہری میں قراء ت منسوخ ہوئی اور اسی آیت سے سری میں پہلی کا نسخ ﴿ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ﴾ سے اور ثانی کا نسخ ﴿ وَأَنصِتُوا﴾سے ہے،پھر اس دعوے کے ثبوت میں مناسباتِ عقلیہ اور اوضاعِ لغویہ سے کام لیا گیا جو اکثر مخدوش ہیں۔اس لیے فریقِ دوم(قائلینِ وجوبِ فاتحہ خلف الامام) کی طرف سے اس پر نقوض و معارضات کا ایک سیلاب بندھ گیا۔‘‘[1] یہ علمائے احناف میں سے ایک فاضل کا اعتراف ہے جو مزید کسی تبصرے کا
Flag Counter