Maktaba Wahhabi

163 - 208
شیخ کے فتاویٰ کے مرتب و جامع ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر کہتے ہیں : ’’شیخ کو بظاہر کوئی خاص تکلیف نہیں تھی، نقاہت تھی جس کی وجہ سے مسجد الحلوانی میں نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوپارہے تھے۔ نقاہت و کمزوری کے باوجود حافظہ اور عقل ودماغ بالکل صحیح کام کررہے تھے۔ اس رات اچانک دل کا دورہ پڑا اور دنیائے عالم میں اندھیرا چھاگیا۔‘‘[1] شیخ رحمہ اللہ کے صاحبزادے شیخ عبد الرحمن بن باز کہتے ہیں : ’’رات گزری اور سحری کے وقت ساڑھے چار بجے آپ پر مرض کا شدید حملہ ہوا، آپ کو فوراً شاہ فہد ہسپتال طائف میں لیجایا جارہا تھا کہ راستے میں ہی در حقیقت اپنے خالق کے حکم پر لبیک کہہ گئے۔ ہسپتال والوں نے خصوصی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا مگر فجر کے وقت پانچ بجے آخری سانسیں بھی ٹوٹ گئیں۔‘‘[2] شیخ کے دوسرے صاحبزادے شیخ احمد بن عبد العزیز بن باز عظیم باپ کی زندگی کے آخری لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’رات کا کھانا کھایا، گھر والوں سے ملے، دو گھنٹے کے لیے سوگئے، رات ڈیڑہ بجے دیکھا تو جانماز پر بیٹھے پایا، شیخ تہجد کے بڑے پابند تھے۔ مجھے سوجانے کی ہدایت کی اور پھر لیٹ گئے۔ رات تقریباً ساڑھے تین بجے والدہ نے دیکھا کہ آپ مسکرارہے ہیں لیکن بلانے پر جواب نہیں دیا تو انھوں نے مجھے بلایا، دیکھا کہ سانسیں غیر طبعی
Flag Counter