Maktaba Wahhabi

220 - 208
72 وداعاً أیہا الوالد۔۔ وداعاً أیہا الإمام (اے ہمارے روحانی باپ اور امامِ وقت۔۔! الوداع): ڈاکٹر سعود بن حسن مختار(چار صفحات): شیخ رحمہ اللہ کو ان کی وسعتِ قلبی، تواضع او رشفقت کی وجہ سے عام طور پر ان سے کم عمر والے لوگ انھیں ’’والد‘‘ کے لقب سے یا دکرنے کو پسند کرتے تھے۔ بلا مبالغہ وہ ایسے لوگوں میں سے تھے جنھیں دیکھ کر اللہ یاد آجاتا ہے۔[1] 73 الرحیل الأخیر (سفرِ آخرت): وزارتِ تعلیم و معارف کے جناب عبد العزیز بن ناصر البراک مؤلّف کتاب:’’ابن باز في الدلم۔۔ قاضیاً و معلماً ‘‘(چار صفحات) : شیخ صالح العلی نے اپنے اشعار میں سماحۃ الشیخ الوالد رحمہ اللہ کو کبھی ’’علامہ الشرق‘‘ کہا تھا اور اب ہم کہتے ہیں کہ وہ ’’علامہ العالم الإسلامي قاطبۃً‘‘ تھے۔[2] 74 غداً نلقی الأحبۃ (کل ہم اپنے پیاروں سے ملیں گے): انسٹنٹ (لوئر) کورٹ الریاض کے جج شیخ سلیمان بن محمد المہنّا(دو صفحات): دنیا ان کے قدموں پر ڈھیر ہوگئی مگر انھوں نے اسے جوتے کی نوک سے ٹھوکر ماردی۔ وہ زبانِ حال سے (حضرت بلال بن رباح کے الفاظ میں) فرمایا کرتے تھے: ’’غَداً نَلْقَیٰ الْأَحِبَّۃ۔۔ مُحَمَّداً وَ صَحْبَہ‘‘ ’’کل ہم اپنے پیاروں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ملنے والے ہیں۔‘‘[3]
Flag Counter