Maktaba Wahhabi

166 - 208
سفرِ آخرت کا آنکھوں دیکھا حال: ڈاکٹر ناصر زہرانی کہتے ہیں : ’’بروز جمعرات ۲۷؍ محرم ۱۴۲۰ھ نمازِ فجر سے قبل طائف شہر میں آپ نے وفات پائی۔ وہاں سے آپ کی میت جمعہ کی صبح کو ان کے گھر مکہ مکرمہ لے جائی گئی جہاں انھیں غسل اور کفن دیا گیا، غسل وتکفین کے بعد جنازہ مسجد حرام (خانہ کعبہ) لے جایا گیا، جہاں سعودیہ کے کونے کونے بلکہ دنیا کے ملک ملک سے لوگ جمعہ و جنازہ پڑھنے کے لیے جمع تھے۔‘‘ جریدۃ المدینہ اور صاحبِ ’’امام العصر ‘‘لکھتے ہیں : ’’خطبۂ جمعہ میں امام و خطیبِ حرم معالی الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیّل نے خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا: آج امّتِ اسلامیہ ایک عظیم حادثۂ فاجعہ سے دوچار ہوگئی ہے اور وہ حادثہ، عالمِ امّت اور دور حاضر کے امام اہلِ سنّت علامۂ زمان، فقیہِ دوراں،بطلِ جلیل ومجاہدِ عظیم سماحۃ العلامۃ الجلیل عبد العزیز بن باز کی وفات کا حادثہ ہے۔‘‘ یہ کلمات سنتے ہی لوگوں کی چیخیں نکلنے لگیں،کئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑیاں لگ گئیں۔نماز مکمل ہوئی سلام پھرنے کے بعد مؤذن نے پکارکرکہا : ’’اَلصَّلٰو ۃُ عَلٰی سَمَاحَۃِ الشَّیْخ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ بَازٍ یَرْحَمْکُمُ اللّٰہ‘‘ ’’اب سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘ اس وقت جنازہ کے لیے قریب ہونے اور جنازے کو کندھا دینے کی تمناپورا ہونے کی امید پر لوگوں میں عجیب کھلبلی تھی کہ قلم وہ نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے۔
Flag Counter