Maktaba Wahhabi

168 - 208
ادھر شیخ کے گھر (مکہ مکرمہ) میں تعزیت کے لیے آنے والی خلق کا جمِ غفیر دیدنی تھا۔ ہر طبقے، ہر نسل، ہر رنگ، ہر زبان، ہر علاقے اور تقریباً ہر ملک کے لوگ جمع تھے، شہزادے، وزراء، علماء، طلبہ، سردارانِ قبائل، فقراء و مساکین،کالے گورے، عرب وعجم اور چھوٹے بڑے لا تعداد لوگ جمع تھے، دوسرے دن طائف میں شیخ کے گھر تعزیت تھی اور تیسرے دن الریاض میں ان کے گھر تعزیت کے لیے لوگ جمع ہوئے۔‘‘[1] بقول شیخ عبد الرحمن بن باز و الشیخ عبد العزیز صالح العسکر: شیخ کی خبرِ وفات توجمعرات کی نمازِ فجر سے شروع ہوئی اور ٹیلیفون کے ذریعے جنگل میں آگ کی طرح سعودیہ میں ہی نہیں دنیا بھر میں پھیل گئی لیکن دوپہر تین بجے شاہی محل سے شاہی بیان جاری ہوا جس میں شیخ کی وفات کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور بتایا گیا کہ کل نمازِ جمعہ کے بعد حرمِ مکی میں جنازہ ہوگا۔ فقید الامت کے جنازہ کے دو ملین سے زیادہ شرکاء میں سے خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبد العزیز آل سعود اور سعودی عرب کے ولی عہد پرنس (موجودہ حاکم خادم الحرمین الشریفین) شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود کے علاوہ بے شمار علماء اور شہزادے بھی شامل تھے۔ شیخ کے صاحبزادے عبد الرحمن بن باز کے بقول انھیں غسل دینے والے کئی علماء تھے جن میں سے شیخ عبد الرحمن الغیث، شیخ عبد اللہ الحمود اور شیخ یوسف الحارثی بھی تھے۔ غسل و تکفین اور جنازہ کے بعد انھیں مقبرۃ العدل میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ مقبرۃ العدل مکہ مکرمہ کا وہ قبرستان ہے جس میں پہلے معروف قاری و امامِ حرم شیخ عبد اللہ الخلیفی، امامِ حرم شیخ عبد اللہ الخیاط، رئیس شئوون الحرمین الشریفین ورئیس
Flag Counter