Maktaba Wahhabi

136 - 208
ہم آپ کا انتظار کریں ؟ اس پر انھوں نے فرمایا: نہیں،میں مقررہ وقت پر (ڈھائی بجے ڈیوٹی مکمل کرکے) ہی آؤں گا۔[1] اِنْ شَآئَ اللّٰہ بلا خوفِ لومۃ لائم حکّام و امراء اور سربراہانِ مملکت و زعماء پر نکیر: شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے نہ صرف عام لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے بلکہ سعودی عرب ہی نہیں کئی دوسرے اسلامی ممالک کے حکّام و امراء اور قائدین ووزراء سے بھی بڑے اعلیٰ مراسم تھے، وہ ان کے لیے قبولیت کے خاص اوقات میں دعائیں کیا کرتے تھے لیکن ساتھ ہی اگر کسی سے کسی منکر فعل کے ارتکاب کا پتہ چلتا تو اسے زبانی و تحریری ہر ممکن طریقہ سے نصیحت بھی ضرور کیا کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں شیخ کے مکتوبات کی ایک بہت بڑی مقدار موجود ہے جن کی جمع و ترتیب اور نشر و اشاعت ایک مستقل کام اور ان کی زندگی کا ایک الگ کارنامہ ہے۔ اب دیکھیں ان رسائل و مکتوبات کو لوگوں کے سامنے لانے کا کام کس کے ہاتھوں ہوتا ہے؟ شیخ کے ان عظیم مکتوبات اور جرأت کے مظاہروں میں سے ایک ایسا مظاہرہ بھی ہے جس کی دوسرے کسی کو ہمّت نہ ہوئی، وہ جرأت مندانہ اقدام شیخ رحمہ اللہ کا مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے نام وہ برقیہ( تار و ٹیلی گرام)ہے جس میں انھوں نے اس کے اس فیصلے پر سخت نکیر و مذمّت کی جس کی رو سے اس نے سیّد قطب رحمہ اللہ کو پھانسی چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ حاکمِ مصر کے یہاں سیّد قطب شہید رحمہ اللہ کے معاملہ میں حکّام و سلاطین میں سب سے بڑھ چڑھ کر پھانسی نہ دینے کی سفارش کرنے والے شاہ فیصل رحمہ اللہ تھے۔ شیخ کی جرأت مندی ا ور حکّام و سلاطین کو پند و نصیحت کے واقعات اور نکیر و مذمّت پر مشتمل صرف یہ ایک برقیہ ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہے۔[2]
Flag Counter