Maktaba Wahhabi

161 - 208
آپ کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ آپ دنیا کے مسلمانوں کے غم خوار، امید کی کرن، ان کا دفاع کرنے والے اور نجات دلانے والے ہیں۔پھر وفد کے ایک شخص نے کہا: شیخ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری کل عمر میں سے دس سال آپ کو دے دے، یہ سن کر ان کے رئیس نے پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا اور شیخ سے لپٹنا شروع کردیا۔[1] 5 شیخ صالح بن راشد لکھتے ہیں کہ شیخ سعد البریک نے ایک ثقہ شیخ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ روس کے حجاج میں سے ایک شخص منیٰ میں شیخ کی اقامت گاہ میں داخل ہوا اور شیخ کو دیکھ کر پوچھا : کیا آپ ہی شیخ عبدالعزیز ابن باز ہیں ؟ شیخ نے انتہا ئی تواضع سے کہا: ہاں میں ہی عبدالعزیز بن باز ہوں۔اس شخص نے شیخ کو سلام کیا، گلے لگا یا، سر چوما اور کہا: اللہ کی قسم !میں دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اللہ اس وقت تک مجھے موت نہ دے جب تک کہ میں آپ کو دیکھ نہ لوں۔[2] مرض الموت اور آخری ایام: شیخ رحمہ اللہ حسبِ عادت سعودی عرب کے موسمِ گرما کے دار الخلافۃ طائف میں اپنے فرائضِ منصبی اور روزانہ کے معمولات کی ادائیگی میں مصروف تھے کہ بیمار ہوگئے۔ انھیں علاج معالجہ کے لیے ملک سے باہر لیجانے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ آخر شاہی حکم نیز اعلیٰ پیمانے کا ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا جو ان کے علاج پر مامور ہوا۔ علامہ رحمہ اللہ کے گھر کی ضروریات اور دیگر امور کی دیکھ ریکھ کرنے پر مامور یا
Flag Counter