Maktaba Wahhabi

140 - 208
تھے حتیٰ کہ سعودی علمی حلقوں کی معروف شخصیت شیخ ابو عبد الرحمن الظاہری لکھتے ہیں کہ اگر کبھی کسی اہم مسئلہ میں انھیں فتویٰ دینا ہو تا تو اپنا فیصلہ روک دیتے۔ پہلے صلوٰۃ الاستخارہ پڑھتے اور انشراحِ صدر ہوجانے پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔[1] حکّام و امراء کے دلوں میں شیخ کی محبت و احترام: شیخ نے آلِ سعود کے حکمرانوں میں سے شاہ عبد العزیز، شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد اور شاہ فہد کا دور دیکھا، شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے عہد میں شیخ ابھی بیس بائیس سال کے نوجوان تھے۔ تاہم سعودی عرب میں حاکم خاندان کے یہاں ہمارے ممدوح کی بہت ہی عزت و قدر تھی، و ہ ان سے بڑی محبت و احترام سے پیش آیا کرتے تھے، انھیں مجالس میں ممتاز مقام دیا جاتا، ان سے مشورہ کیا جاتا، ان کی رائے کا احترام کرتے اور ان کی سفارش کو قبول کیا کرتے تھے، ان کی دینی خدمات میں ان کا بھر پور تعاون جاری رہا اور ان سے بالواسطہ اور بلا واسطہ میل جول بھی تھا حتیٰ کہ شیخ کے ایک شاگرد ڈاکٹر عبد اللہ المجلی کے بقول جب شیخ پہلی مرتبہ بیمار ہوئے اور ان کے گھٹنے میں درد اٹھا تھا تو خود خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد، ان کے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ، ان کے نائب شہزادہ سلطان اور تقریباًتمام ہی شہزادے ان کی عیادت و مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر تشریف لائے تھے۔[2] شیخ رحمہ اللہ سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ میں بنفسِ نفیس خود خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد رحمہ اللہ،اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ (موجودہ حکمران)، ولی عہد شہزادہ سلطان اور اکثر شہزادے
Flag Counter