Maktaba Wahhabi

82 - 208
تہجد کے لیے اٹھ جاتے اور مجھے اور شیخ عبد العزیز بن ناصر کو بھی اٹھا دیتے تاکہ ہم بھی اپنا حصہ حاصل کرلیں۔ آج ہمیں یقین تھا کہ شیخ دن بھر اور نصف رات تک کام اور سفر کی مشغولیت میں اتنے تھکے ہوئے ہیں کہ آج تہجد کے لیے نہیں اٹھ پائیں گے مگر ٹھیک تین بجے آپ اٹھ گئے اور ہمیں بھی بیدار کر دیا۔ اذان تک نماز و دعا اور تلاوت میں مشغول رہے، پھر نماز کی جماعت کروائی، سلام پھیرا تو درس شروع کر دیا، فارغ ہوئے تو گھر کو چل دیے، ہم کہنے لگے کہ آج آپ فجر کے بعد والی معمول کی مجلس نہیں کرینگے مگر جیسے ہی آپ مجلس میں پہنچے غُترہ (سر والا لال رومال) اور ٹوپی ایک طرف رکھی اور کہا: بسم اللہ، کیا کیا معاملہ ہے تمہارے پاس؟ میں نے معاملات کے کاغذات پڑھنا شروع کر دیے، سات بج کر بیس منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا، میرا خیال تھا کہ اب وہ لمبے عرصے کے لیے سو جائیں گے مگر انھوں نے کہا کہ آٹھ بیس پر الارم لگا دیں،الارم کی آواز پر اٹھ گئے، ہمیں بھی اٹھایا اور رابطہ عالم اسلامی کے صدر دفتر چلے گئے اور دوپہر ساڑھے بارہ بجے حسبِ معمول گھر لوٹے، ہمارا تھکاوٹ سے برا حال تھامگر شیخ کے چہرے پر اس کے آثار تک بھی نظر نہیں آرہے تھے۔[1] سخاوت و فیاضی کے آفاق: 1 شیخ بدر بن نادر المشاری بیان کرتے ہیں کہ میں شیخ کے پاس بیٹھا تھا، فلپائن سے آنے والا ایک خط ترجمہ کرکے شیخ رحمہ اللہ کو سنایا گیا، جس میں ایک عورت نے لکھا تھا کہ میں عیسائی تھی، میں مسلمان ہوئی اور پھر میرا سارا خاندان بھی مسلمان ہوگیا، اور یہ اللہ کی توفیق کے بعد آپ کی ایک کتاب
Flag Counter