Maktaba Wahhabi

134 - 208
خود مؤلّفِ امام العصر ڈاکٹر ناصر الزہرانی لکھتے ہیں کہ شیخ رحمہ اللہ ایک دن مکہ مکرمہ سے جدہ گئے تاکہ وہاں پر منعقد ایک بڑی کانفرنس میں شرکت فرمائیں۔پھر وہ ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول فرما کر مکہ مکرمہ لوٹ آئے۔ نمازِ عصر ادا کی اور نماز کے بعد حسبِ معمول درس دیا، پھر تھوڑا سا سستانے کے بعد نمازِ مغرب ادا کی اور تھوڑی دیر لوگوں کے ما بین بیٹھے رہے پھر دوبارہ جدہ روانہ ہوگئے تاکہ نمازِ عشاء کے بعد وہاں طے شدہ لیکچر (محاضرہ)دیں۔محاضرہ کے بعد انھیں وہاں کے بعض اہلِ علم و فضل نے دعوتِ ضیافت دی تو ان کے یہاں تشریف لے گئے اور وہاں بھی محاضرہ دیا، پھر لوگوں کے سوالات سنے، ان کے جوابات دیے اور رات کا کھانا کھایا اور واپسی میں ان کے مرافقین باری باری متعدد معاملات و امور پیش کرتے گئے اور بعض کتب بھی پڑھتے گئے، واپس پہنچ کر تھوڑا سا آرام کیا اور نمازِ فجر میں آپ سب سے پہلے مسجد میں پہنچ گئے۔[1] شیخ محمد الموسیٰ نے ایک انتہائی عجیب و غریب واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام اور مرض الموت میں ماہِ شوال ۱۴۱۹ھ میں ایک جمعہ کے دن شیخ کی بیماری زور پکڑ گئی، سارا دن قے آتی رہی۔ اس دن وہ نہ لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھ سکے نہ نمازِ عصر و مغرب و عشاء۔ طے پایا کہ انھیں ہسپتال میں منتقل کردیا جائے چنانچہ انتہائی مرض ونقاہت کی حالت میں انھیں وہاں لے جایا گیا، ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد دوائیں و غیرہ دیں تو ان کی حالت کچھ سنبھل گئی۔ میں نے ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اب بخیر ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے کوئی کتاب پڑھے، پھر سب لوگ سوگئے۔ شیخ اس رات بھی نمازِ تہجّد کے لیے اٹھ گئے۔ تہجّد کے بعد تلاوت
Flag Counter