Maktaba Wahhabi

214 - 256
جوگن کی جھولی بھر دے او رام نام والے! اس بت کو رام کر دے او رام نام والے! نکلی ہے گھر سے جوگن کفنی گلے میں ڈالے پاؤں میں پڑ گئے ہیں اب چلتے چلتے چھالے گرنے کو ہوں زمیں پر ، ہے کون جو سنبھالے بطحا نگر کے راجا! او کالی کملی والے! ہندی شاعری میں بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ عورت اپنی جدائی کی کیفیت کا اظہار کرتی ہے۔ خصوصاً ساون کے مہینے میں محبوب سے جدائی کا احساس اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے۔ موسم کے حوالے سے ہجر کی یہ کیفیت نعت میں بھی منقلب ہوئی اور کالی گھنگور گھٹائیں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کا اسی طرح بہانہ بنیں جس طرح ہندی شاعری میں اپنے محبوب کی یاد کا۔ ملاحظہ ہو: یہ کالی بھنور گھنگور گھٹا مورے جی کو بھاوت ہے سجنی کوئی کالی کملیا والا پیا موہے یاد دلاوت ہے سجنی (نعت سلطان عرب مؤلفہ فضل الدین) ساون آیا لے تو خبریا تم تو بسے بطحا کی نگریا (صہبائے حرم از ساجد صدیقی لکھنوی) اسی طرح پرندوں کے ذریعے محبوب تک اپنی واردات و کیفیتِ ہجر پہنچانے کی کوشش جو ہندی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ، مثلاً: ’’کا گا‘‘ سے منسوب قاصد کا تصور ، نعت میں بھی ہجر کی کیفیت کے اظہار کا حوالہ بنا ، چنانچہ میرؔا بائی کے دوہا:
Flag Counter