Maktaba Wahhabi

241 - 256
مجید امجد (وفات: 1974ء) شہر مکہ بتوں کی بستی تھی چار سو تیرگی برستی تھی لو وہ اک نور کی کرن پھوٹی بزمِ آفاق جگمگا اُٹّھی دیکھنا اک یتیمِ بے ساماں اجنبی، کم سخن، تہی داماں جس نے یوں سال و سِن گزارے ہیں بھوک میں اپنے دن گزارے ہیں پیرہن تن پہ تار تار اُس کا کوئی محرم نہ دوست دار اس کا تپتی ریتوں پہ محوِ خواب کہیں تیز کانٹوں سے زخم یاب کہیں چلتی تیغوں کے درمیان کبھی کنکروں سے لہولہان کبھی ذرّہ ذرّہ عدوئے جاں اُس کا تشنۂ خوں ہے اک جہاں اس کا ہاں مگر لب جب اس کے ملتے ہیں دل کے مرجھائے پھول کھلتے ہیں جب وہ پیغامِ حق سناتا ہے وجد میں دو جہاں کو لاتا ہے جب وہ اونچی صدا سے کہتا ہے ہادیانہ ادا سے کہتا ہے گمرہو! تم یہ کیا سمجھتے ہو پتھروں کو خدا سمجھتے ہو دل دہلتے ہیں قہرمانوں کے دیے بجھتے ہیں کفرخانوں کے بات یہ کیا زبان سے نکلی لاکھ تلوار میان سے نکلی ظالموں کی اذیتیں اک سمت اور خدا کی مشیّتیں اک سمت
Flag Counter