شاعروں نے بھی ان کی پھیلائی ہوئی اس گمراہی کی تقلید میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا۔ ان کی دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی کی مثال ملاحظہ کیجیے:
کہاں ہے کعب ! سیکھے ہم سے آئینِ ثنا خوانی
کہ نعتِ مصطفی اور ذکرِ شمشیرِ مُہنّد کا
(نظم طباطبائی)
شاعروں کو غرّہ
عام غزل گو شعراء نے تو ’’مذہب بیزاری‘‘ کی روایت میں لغویات بکی ہی تھیں، جیسے:
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نکیرین
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بُو آئے
(مرزا غالب)
مگر نعت گو شعراء نے بھی دینی عقائد و شعائر کی تضحیک و تمسخر میں یہاں تک زبان درازی کی ہے:
مرقد میں نکیرین نہ بک بک کے ستائیں
ہوں مست مئے الفتِ محبوبِ خدا کا
(ضمیر الحق قیس)
اسی طرح ان شعراء نے زاہد پہ پھبتیاں کسنے کی روایت کو بھی قائم رکھا ہے:
عجب کیا؟ گر شفاعت سے رہے محروم محشر میں
کہ اے زاہد! بھروسہ ہے تجھے اپنی عبادت کا
(سخن دہلوی)
|