Maktaba Wahhabi

266 - 256
وسیلہ ممنوعہ کی مذکورہ تینوں صورتیں اسلام کے منافی امور بلکہ بدعت اور شرکیات میں داخل ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس امت میں اور سابق امتوں میں شرکِ اکبر کا دروازہ انھی صورتوں سے کھلا تھا، لہٰذا ان صورتوں سے کلی اجتناب کرنا لازم ہے۔ غیر موجود زندہ یا کسی مُردے کی دعا کا وسیلہ وسیلہ ممنوعہ کی چوتھی صورت یہ ہے کہ کسی غیر موجود شخص کی دعا کا وسیلہ لیا جائے، وہ ذات مُردہ ہو یا زندہ، خواہ وہ ذات کسی نبی کی ہو یا ولی وشہید کی، خواہ کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے کہ اے فلاں ہستی! اللہ سے میرا یہ کام کرادیجیے۔ یا اس بزرگ ہی سے اپنی مراد مانگی جائے۔ اس کی حرمت پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے ا ور یہی وہ شرک ہے جو مشرکین عرب میں رائج تھا اور جسے انھوں نے وسیلہ کا نام دے رکھا تھا اور جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے مابین سب سے بڑے اختلاف کی بنیاد تھا۔ اس لیے بقول علامہ محمد بن صالح العثیمین اسے وسیلہ نہیں بلکہ شرک کہنا چاہیے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ صحیح نہیں ہے کہ اسے ہم وسیلہ کا نام دیں بلکہ اسے ہم شرک کہتے ہیں کیونکہ غیر اللہ سے دعا کرنا دین میں شرک اور گمراہی ہے۔ شرک اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک ٹھہرایا اور گمراہی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کے پکارنے ہی سے بے خبر ہیں۔‘‘[1]
Flag Counter