Maktaba Wahhabi

106 - 256
گو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات از راہِ تحیر کی تھی اوراس میں سوء ادب کا کوئی شائبہ نہ تھا مگر لب و لہجہ اس ادب و تعظیم سے ہٹ گیا تھا جس کے وہ عادی تھے۔ زندگی بھر ڈرتے رہے کہ کہیں بارگاہِ رسالت میں سوئِ ادب نہ ہوگیا ہو۔ اس کی تلافی کے لیے صدقہ و خیرات کرتے رہے اور نوافل پڑھتے تھے۔ خود فرمایا کرتے تھے۔ عَمِلْتُ لَہَا أَعْمَالاً۔ ’’میں نے اس کی تلافی کے لیے کئی نیکیاں کیں۔‘‘[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ادب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قریش کی طرف صلح حدیبیہ میں سفارت کے لیے بھیجا تو قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو طواف کرنے کی اجازت دی لیکن آپ نے طواف کرنے سے انکار کردیا۔ اور فرمایا: ’مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوفَ رَسُولُ اللّٰہِ‘ ’’جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کریں، میرے لیے زیبا نہیں کہ میں طواف کروں۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ادب صحیح مسلم میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ عبارت بھی تھی: ’ہٰذَا مَا کَاتَبَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ‘ مشرکوں نے کہا کہ لفظ رسول اللہ نہ لکھو۔ اگر رسالت کے ہم قائل ہوتے تو جھگڑا کس بات کا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس لفظ کو مٹا دو۔‘‘ حضرت علی نے عرض کیا:
Flag Counter