Maktaba Wahhabi

173 - 256
ع تجھ در پہ آرزو میں سلیماں مثالِ مُور (حاتم) کرے جو ہم سری اس سے کسے تاب کہ نبیوں سے بڑھ کے ہیں اس کے اصحاب[1] (سوداؔ) حالانکہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شرف و فضیلت کا اظہار کرتے ہوئے کسی دوسرے نبی کا ذکر استخفاف کے انداز میں نہیں کیا ۔ بقول ریاض الحسن: ’’نعت چونکہ الفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولولہ انگیزی اور جو ش محبت کی ترجمان ہوتی ہے، اس لیے نعت گو شاعر سرور و محبت کی بے خودی میں اعتدال کے رستے سے ہٹ جاتا ہے اور دوسرے انبیاء سے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقابل کرتے ہوئے ایسے الفاظ کہہ جاتا ہے جو درحقیقت نعت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں ہوتے بلکہ ان میں توہینِ انبیاء کا مفہوم مضمر ہوتا ہے جس کی حدیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے نبیوں کا تقابل توکجا بعض اوقات شاعر انبیاء علیہم السلام کو اپنے مد مقابل بھی ہیچ سمجھتا ہے۔(نعوذ باللّٰہ من ذلک)، مثلاً: عبدالرب نشتر کی یہ جسارت: ؎ مِرے لحن پر رشک داود کو ہے مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں حالانکہ لحن داودی کو خود قرآن مجید نے ان الفاظ میں قابل تحسین اور مثالی فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے تھے بحوالۂ قرآن مجید:
Flag Counter