Maktaba Wahhabi

168 - 256
کا درجہ دے دیا، اس لیے نعت گو شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ سے والہانہ محبت، عقیدت اور شیفتگی رکھتا ہو۔ شاعر جس قدر آپ کی محبت میں سرشار ہوگا، اسی قدر اس کے کلام میں کیف اور اثر پیدا ہوگا لیکن اگر اس کے دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسک موجود نہیں تو اچھی اور کیفیت انگیز نعت کبھی نہیں کہہ سکتا۔ نعت کی دل آویزی، دل کشی اور خوبی کے لیے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرط لازم ہے وگرنہ نعت روکھی پھیکی سی رہے گی۔ نعت گوئی سرتا سرکاروبار محبت سے تعبیر ہے اور محبت بھی ایسی جس کی وجہ سے محبوب کی ہر ایک ادا پیاری لگتی ہو مگر ایسی مبالغہ آمیز محبت اور مودّت مطلوب نہیں جو رب کی بندگی سے ہی نکال دے، مثلاً: مسرفین نے کہا: ع تیرے بندے ہیں سب ، کیا عرب کیا عجم (رُعب انصاری) ع ہم ہیں عبدِ مصطفی، پھر تجھ کو کیا (احمد رضا خان) کامیاب نعت گوئی کے لیے سوزو گداز اور جاذبیت کی ضرورت ہے۔ ذوق و شوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر کہی جانے والی نعت کی لَے میں جب محبت کا جذبہ اور الفاظ کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں تو شعروں میں سوز و گداز کی ہزار کیفیات چھلک اٹھتی ہیں، مثلاً: مہکتی رہتی ہیں جس سے مدینے کی گلیاں علاقہ کیا کسی خوشبو کو اس پسینے سے (شوکت تھانوی)
Flag Counter