Maktaba Wahhabi

148 - 256
یعنی میم کے حرف کو احمد سے ہٹا کر ’’احد ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ اور عین کے حرف کو ’’عرب‘‘ سے ہٹا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب بلا عین، یعنی ’’رب‘‘ کی ہستی کے طورپر جلوہ گر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ اس قسم کی نعت گوئی حد سے متجاوز اور دین کے دائرے سے باہر ہے۔ اگرچہ اس قسم کے افکار و اقوال کی صفائی میں کہا جاتا ہے کہ یہ عقیدت کی رو میں بہہ کر حالت سکر میں وارد ہوتے ہیں، لہٰذا ہم انھیں قابلِ مؤاخذہ نہیں سمجھتے، حالانکہ دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحو و سکر کی کوئی حیثیت اور بحث نہیں۔ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارک بھی پیش نظر رکھنی چاہیے: ’’مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو حد سے بڑھایا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں،لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘[1] معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول کہلوانا مرغوب و محبوب تھا اور عبدیت ان کا اعزاز تھا مگر غالی حضرات کو انبیاء علیہم السلام کے مقامِ عبودیت اور بندگی سے نہ جانے کیوں چڑ اور انکار رہا ہے، حالانکہ تمام ملائکہ اورجن و انس اللہ تعالیٰ کی بندگی پر نازاں ہیں۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنھیں نصاریٰ نے مقامِ بندگی سے نکال کر شانِ الٰہی پہ متمکن کردیا، بصد افتخار و انبساط دعویٰ کناں ہیں:
Flag Counter