في صنفين لا يعدوان إلى ثالث أصحاب الحديث وأصحاب الرأي. أصحاب الحديث هم أهل الحجاز وأصحاب مالك بن أنس وأصحاب محمد بن إدريس الشافعي وأصحاب سفيان الثوري وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن علي بن محمد الأصفهاني وإنما سموا أصحاب الحديث لأن عنايتهم بتحصيل الأحاديث ونقل الأخبار وبناء الأحكام على المنصوص ولا يرجعون إلى القياس الجلي والخفي ما وجدوا خبرا (ص45 بر حاشیہ کتاب الفصل لابن حزم) اور اصحاب الرائے۔ اصحاب الحدیث کا مسکن حجاز ہے۔ امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان ثوری اور ان کے رفقاء، امام احمد کے ساتھی اور امام داؤد ظاہری کے خدام۔ انہیں اہل حدیث اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی توجہ حدیث اور اخبار کی طرف سے اور احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے جب تک حدیث موجود ہو وہ قیاس جلی اور خفی کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: أصحاب الرأي وهم أهل العراق هم أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت بن من أصحابه محمد بن الحسن وابو يوسف يعقوب بن محمد بن محمد القاضي وزفر بن هذيل والحسن بن زياد الؤلؤي وابن سماعة وعافية القاضي وابو مطيع البلخي والبشر المريسي وإنما سموا أصحاب الرأي لأن عنايتهم بتحصيل وجه من القياس والمعنى المستنبط من الأحكام وبناء الحوادث عليها وربما يقدمون القياس الجلي على أخبار الآحاد (شہرستانی ج2 ص 42) اہل عراق کو اصحاب الرائے کہا جاتا ہے یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ہیں انہیں میں امام محمد، امام ابو یوسف قاضی، زفر، حسن بن زیادہ، ابن سماعہ قاضی، عافیہ، ابو مطیع بلخی اور بشر مریسی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس اور معانی کے استنباط کی طرف ہے اور احکام کی بناء ان قیاس پر رکھتے ہیں اور بسا اوقات قیاس جلی کے سامنے خبر واحد کی بھی پروا نہیں کرتے۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |