Maktaba Wahhabi

44 - 236
طریق کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں۔ شخصی آراء اور افکار اور تقلید جامد سے اذہان کو ہر قیمت پر آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اہل بدعت کی سی ذہن میں آوارگی کسی قیمت پر بھی پسند نہیں کرتے۔ اس وقت کے علماء اہل حدیث کے سامنے چند کام ہیں۔ احادیث نبوی کا حفظ اور ضبط، احادیث میں تفقہ اور استنباط، بدعام اعتقادیہ اور عملیہ سے کلیۃً پرہیز۔ شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ سے ائمہ حدیث کے مذہب کے بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’علمائے محدثین بیک مذہب از مذاہب مجتہدین نمے باشند۔ بس بعضے اعمال ایشان مطابق کتب فقہ مے با شند وبعضے دیگر مطابق کتب دیگر‘‘ اھ (فتاویٰ عزیزی ص117، ص2) ’’ائمہ حدیث مروجہ مذاہب کے پابند نہیں ہوتے۔ فقہاء عراق باقی علمی مآخذ سے برابر استفادہ فرماتے ہیں۔‘‘ اھ شاہ صاحب کے ارشاد سے واضح ہے کہ یہ ایک مستقل مکتبِ فکر ہے جس میں پابندی اور جمود نہیں۔ فتنۂ اعترال جب عجمی اہل اسلام سے متاثر ہوئے۔ اسلام کی سادگی نے جہاں انہیں کافی حد اپنی تربیت میں لے لیا۔ وہاں ان لوگوں نے بہی اسلام کو متاثر کیا۔ یونانی علوم اور فلسفی نظریات اسلام کے بعض بنیادی عقائد سے ٹکرائے۔ صفاتِ باری کی حقیقت کیا ہے؟ باری تعالیٰ کے انصاف کی ؟؟؟ کیا ہے؟ صفات عین ذات ہیں؟ یا غیر ذات؟ حادث اور قدیم کے درمیان ربط کی کیا صورت ہے؟ بیسیوں مسائل ومباحث سطح ذہن فکر پر ابھر آئے۔ یہیں سے اعتقادی بدعات کا آغاز ہوا۔ علمائے سنت کو یونانی اسلحہ سے مسلح ہو کر ان مباحث کو حل کرنا پڑا۔ بدعات کے شیوع نے ایک دفعہ اہل علم کو حیرت میں ڈال دیا۔ امام احمد، علامہ عبد العزیز کنانی وغیرہ نے اس وقت بڑی جرات اور ثابت قدمی سے کام کیا۔ مامون رشید، واثق باللہ، معتصم باللہ، عمائد حکومت ان خیالات سے متاثر تھے۔ اس وقت ائمہ حدیث بے انتہاء مشکلات میں مبتلا ہوئے۔
Flag Counter