Maktaba Wahhabi

34 - 236
نہ ہو فرمایا: ﴿ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ 18؀ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ 19؀ۭ](القیامہ:18-19) ’’تم ہمارے ارشاد کے مطابق قرآن کو پڑھو پھر اس کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم کے مطابق خدا کے احکام کی وضاحت فرمائیں لیکن وہ بیان ہمارے خود ساختہ اصول کے ہم پلہ نہ ہو سکے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک یہ عجیب تھا۔ اس لیے حجۃ اللہ، الخیر الکثیر، تفہیمات، مصطفیٰ مسویٰ، عقد المجید، الانصاف وغیرہ میں اسے بار بار دہرایا اور مختلف طرق سے اس فقہی جمود کو توڑنے کی کوشش فرمائی اور احتجاج فرمایا کہ سنت کےساتھ یہ بے انصافی اور ترجیحی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ بڑا ہی نامناسب ہے کہ غیر معصوم انسانوں کے بنائے ہوئے اصول تو دین کا اساس قرار پائیں اور سنت جو فی الحقیقت اور دین کی بنیاد ہے وہ ان مصنوعی اصول کے سامنے یتیم اور لاوارث قرار پائے اور سنت سے ایسا سلوک وہ لوگ کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ حدیث کی صحت حدیث کی صحت یا ضعف کا مسئلہ اس وقت خارج از بحث ہے اس لیے کہ ان اصول کی حکومت کے سامنے حدیث صحیح یا ضعیف بے بس ہے۔ ویسے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ حدیث ضعیف بھی ہو تو وہ قیاس سے مقدم ہے اور اس کے لیے اصول فقہ کے دفاتر میں حدیث قہقہہ کے انداز کی شاید ایک دو مثالیں بھی مل جائیں۔ در اصل حضرات فقہائے عراق خصوصا اتباع قاضی عیسیٰ بن ابان سنت سے ویسے ہی کچھ ناراض ہیں۔ وہ رائے کے دروازوں کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ سنت کے ابواب بند ہوتے ہیں تو ہو لیں۔ اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ جیسا بیدار مغز، معاملہ فہم، دور اندیش، تجدیدی ذہن رکھنے والا آدمی پورے ماحول کی اس نامناسب کیفیت پر کیسے مطمئن ہو سکتا تھا۔ شاہ صاحب نے اصول فقہ کے ان نظریات پر اپنی تصانیف میں جا بجا تنقید فرمائی اور یہی تنقید اس وقت ان ذہین لوگوں کے سامنے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جو اہل حدیث یا سلفی کہلاتے ہیں۔
Flag Counter