Maktaba Wahhabi

111 - 236
بہت بڑی قربانی کا متقاضی تھا۔ رفض کا سازشی مزاج نمایاں ہو چکا تھا اور شرک و بدعت کی سرپرستی کے لیے ولایت سے انگریزی فوجیں کلکتہ کے ساحل سے اتر کر دہلی تک پھیل چکی تھیں۔ اس جوڑ توڑ سے اولیاء الشیطان اور اساطین شرک و بدعت کو جس قدر مدد مل سکتی تھی اور جس حد تک وہ مضبوط ہو سکتے تھے، ظاہر ہے۔ یہاں معمولی علماء کی دال نہ گلے تو تعجب نہیں۔ ایسے وقت میں اہلِ حق کو یا تو پوری قوت سے میدان میں اترنا چاہئے یا پھر قوتِ اعجاز کا انتظار کرنا چاہئیے۔ ایک قرشی خاندان موت و حیات کی اس کارگاہ میں وقت کی آواز کے مطابق ایک نجیب الطرفین قرشی خاندان مقتل کی پوری فضا پر قابض ہو گیا۔ اس قربانی کی داغ بیل گیارھویں صدی کے آغاز میں ایک العمری فاروقی نے ڈالی تھی، جس نے تجدید کی شان سے شیطان کے لشکروں کو للکارا۔ اس نے اپنی بے پناہ قوت سے شاہ جہان اور جہانگیر کے تاج کو جھنجوڑا۔ اس نے حاکموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا کہ یہ تخت و تاج تمہارے ابّا کی میراث نہیں۔ یہ میرے رحمان اور قہار رب کا عطیہ ہے۔ اگر تم اس کی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ تخت و تاج تم سے بزور واپس لے کر کسی اور کے سپرد کیا جائے گا۔ ان تتولو ایستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم۔ رحمانی طاقتیں قہاریت کے رنگ میں ظاہر ہوں گی۔ اس مقدس انسان نے پوری سنجیدگی سے کہا، تخت و تاج عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہے۔ اللہ کی کتاب اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی نگہداشت کے لیے ہے۔ جو یہ خدمت نہیں کر سکتا، اسے خودبخود یہ کرسی خالی کر دینا چاہیے۔ اس تخت و تاج کا مقصد خدمت ہے ریاست نہیں۔ یہاں غلامی مطلوب ہے شہزادگی مقصود نہیں۔ اس بادشاہت کا یہ منشا نہیں کہ اللہ کی مخلوق تمہاری تعظیم کے لیے سربسجود ہو اور تمہاری گردنیں رعونت سے تنی رہیں، تم رقص و سرور اور فسق و فجور میں زندگی بسر کرو اور مخلوق تمہارے سامنے کورنش بجا لائے۔ اس اخلاص بھری آواز کا جواب قلعہ گوالیار میں قید اور کئی سال تک نظر بندی کی صورت میں دیا گیا۔ لیکن یہ استبداد دیر تک نہ رہ سکا۔ آخر جیل کے دروازے کھولنے پڑے۔ نظربندیوں کے تار، تار تار
Flag Counter