Maktaba Wahhabi

90 - 236
5۔ اہل حدیث کتاب و سنت کے علاوہ صحابہ اور سلف کے ارشادات کو اصل سمجھتے ہیں۔ اور اس پر اپنے فہم اور استبناط کی بنیاد رکھتے ہیں۔ 6۔ اہل الرائے مسائل کے استنباط میں مخصوص اہل علم کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ کتاب وسنت ان کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ 7۔ اہل حدیث مکتب فکر اہل الرائے اور اہل ظاہر کے علاوہ ہے۔ شاہ صاحب نے اس قسم کی تصریحات حجۃ اللہ کے علاوہ تفہیمات وانصاف، عقد الجید وغیرہ میں بھی فرمائی ہے۔ شاہ عبد العزیز صاحب فتاویٰ عزیزیہ، تفسیر فتح العزیز میں اسی موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ صراط مستقیم میں حضرت سید احمد شہید نے بھی جمود اور مروجہ تقلید کے متعلق کافی وضاحت فرمائی ہے۔ ان تصریحات کی تائید شاہ اسمٰعیل شہید نے بھی فرمائی ہے۔ علامہ شوکانی نے القول المفید میں بقدر ضرورت تفصیل کے ساتھ ائمہ حدیث کے مسلک کی وضاحت فرمائی ہے۔ إيقاظ همم أولي الأبصار میں امام یحییٰ فلانی بھی محدثین کے مسلک کی تائید فرمائی ہے۔ ابن عبد البر نے ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں اہل الرائے اور اہل الحدیث کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اور مسلک اہل حدیث کو راجح اور صحیح تصور کیا ہے۔ ان کی تصریحات کے لئے وقت اور کسی دوسری صحبت کی ضرورت ہے۔ حقیقت پسند آدمی ان تصریحات کا مطالعہ کرے تو اسے یقین ہوکا کہ اہل حدیث محض حفاظ حدیث نہیں بلکہ ان حضرات کا طریق فکر ہے جس پر تفقہ اور اجتہاد کی بنیاد کتاب وسنت اور سلف امت کے ارشادات پر رکھی گئی ہے۔ تقلید شخصی اور جمود کے لئے اس مسلک میں کوئی مقام نہیں۔ شرہرستانی (548ھ) دور جود کے آغاز سے بہت قریب ہیں۔ فرق اور مذاہب کے اجتماع اور افتراق پر ان کی نظر غائر اور وسیع ہے۔ ان کی کتاب الملل والنحل میں اس موضوع کی مستند دستاویز شمار کی جاتی ہے، ان کی تصریحات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اہل حدیث ایک مکتب فکر ہے۔ جسے فقہی مکاتب میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ محض حدیث کی خدمت کا نام نہیں۔ ثم المجتهدون من أئمة الأمة محصورون ائمہ مجتہدین کی دو ہی قسمیں صاحب الحدیث
Flag Counter