Maktaba Wahhabi

103 - 236
4. زندگی کے تمام شعبوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام۔ روافض کو اہل بیت کی محبت میں غلو تھا اور خوارج کو ان کے بغض میں۔ اہل سنت نے اعتدال کی راہ اختیار کی۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کو عام انسانوں کی طرح مجسم مانتے تھے اور بعض اس کی صفات کو ایک مفہوم کی حد تک سمجھتے اور ان کی حقیقت سے صاف انکار کرتے۔ ائمہ حدیث نے صفات کی حقیقت کو تسلیم فرمایا اور تشبیہ اور مماثلت کی نفی فرمائی۔ یہی معتدل راہ تھی۔ قیاس کے ہمہ گیر اثر نے نصوص اور صحیح احادیث کو بے کار کرکے رکھ دیا۔ اور ظاہریت کی طغیانی نے قیاس کا سرے سے انکار ہی کر دیا۔ حاللانکہ نظائر اور ملتی جلتی چیزوں کے احکام بھی باہم متشابہ رہنے چاہئیں۔ عقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے۔ قرآن حکیم نے أنزل الكتاب بالحق والميزان فرما کر قیاس کے اسی پہلو کو واضح فرمایا ہے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی ’محلّیٰ‘ کے بعض قیمتی مباحث اہل حق کی آنکھوں کے لئے نور ہیں۔ لیکن بعض مضحکہ خیز توجیہات بھی اہل علم کی نگاہوں سے پوشید نہیں۔ جہاں وہ رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کو تو منع فرماتے ہیں۔ لیکن پاخانہ کی اجازت دیتے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں اہل حق کے موقف کی پوری وضاحت فرمائی ہے۔ قیاس کی سمیت کا یہ اثر تھا کہ مسکرات اور محرمات کی جزوی رخصت ے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ نبیذ اور طلا وغیرہ کے مباحث فقہاء رحمہم اللہ کی مستندات میں مرقوم ہیں۔ اور منکرین قیاس نے پاخانہ کی نجاست کو پیشاب سے بھی کم تصوّر فرمایا۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ میزان اہل حدیث کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے نبیذ اور طلاء کا فیصلہ كل مسكر حرام کی روشنی میں کیا۔ مسکر کا استعمال تو کہیں رہا۔ اس کی صورت کو بدل کر سرکہ بنانے کی بھی ممانعت فرمادی۔ اور نجاست کے معاملہ میں پیشاب وغیرہ اور نجاستوں کا ایک ہی حکم تصوّر فرمایا۔ قیاس صحیح کا بھی یہی تقاضا تھا اور نصوص صحیحہ کا بھی یہی مفاد۔ اہلحدیث اور باقی تحریکات عموماً تحریکات وقتی تقاضوں کی پیداوار ہوتی ہیں۔ اس لیے وقتی اور مخصوص مقاصد کی تحصیل کے بعد ان تحریکوں کی عمر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً خاندانِ نبوت کے ہوا خواہوں نے سمجھا کہ خلافت کا حق موروثی
Flag Counter