لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس کے باوجود وہ فقیہ بھی تھے اور محدث بھی، اہل حدیث بھی اور اصحاب فقہ بھی۔ کسی چیز کی فنی تدوین دوسری چیز ہے اور اس کا صحیح فہم دوسری چیز۔ صحابہ کے ان تذکروں میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کا پورا تذکرہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں نقل فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ کی مسند بواسطہ وہب بن منبہ مطبوعہ موجود ہے۔ تابعین کا یہ سلسلہ اور بڑھ گیا اور یہ نوٹ اور ضخیم ہوگئے۔ زہری، ابن عیینہ، عمر بن عبد العزیز کے تذکرے اب بھی دستیاب ہو سکتے ہیں۔ مسند احمد میں یہی نوٹ بصورت مسانید موجود ہیں اور یہ ضخیم چھ جلدوں میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ صدیوں سے ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ یہ دور فقہاء اور محدثین کا ہے۔ وہ احادیث کو حفظ بھی کرتے ہیں، اس کے مضمون کو سمجھ کر اس کی روشنی میں فتوے بھی دیتے ہیں۔ اس کے مواد کے لئے محلّیٰ ابن حزم، مغنی ابن قدامہ، مصنف ابن ابی شیبہ ہمارے ہاتھوں میں ہے جس میں آثار کی بڑی مقدار موجود ہے۔ اسے فقہ کہیے یا آثار۔ ان لوگوں نے قرآن اور سنت سے سمجھ کر یہ فتوے دئیے، بلکہ محدثین کی فقہ کے لئے تو قرآن وسنت کے بعد یہی آثار اجتہاد اور استنباط کی اساس اور بنیاد ہیں۔ (حجۃ اللہ ص119 ج1) تدوین حدیث کا دور اس کے بعد تدوین حدیث کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس وقت کی مصنفات میں احادیث پر تبویب کی گئی ہے۔ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ وغیرہ کے مصنفین نے تبویب کی ہے۔ احادیث سے مسائل استنباط فرمائے ہیں، جس سے انسان میں قوت استنباط پیدا ہوتی ہے۔ مذاہب اربعہ کی کتب فقہ تو مسائل کی نقل ہے ان کتابوں سے استنباط کا ملکہ مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ان ضخیم کتابوں کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ فقیہ نہیں۔ ان کا کام الفاظ حدیث کا حفظ تھا، یہ صرف فن کار تھے۔ ایک پڑھا لکھا شخص جسے حدیث کی کتابوں پر سرسری عبور بھی ہو اسے یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ ائمہ حدیث کو غیر فقیہ کہے۔ امام بخاری کی تبویب نے بڑے بڑے ارباب فقہ وبصیرت کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ باقی محدثین ابو داؤد، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ کی تبویب نے ان کے تفقہ اور فقہی بصیرت کو واضح کر دیا ہے۔ جہاں تک احادیث سے مسائل کے استخراج اور فہم کا تعلق ہے۔ ائمہ حدیث کی تبویب میں صحیح اور معیاری فقہ پائی |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |