Maktaba Wahhabi

98 - 236
جاتی ہے۔ اگر فقہ فرضی صورتوں کا نام ہے اور اس سے غیر موجود بلکہ نا ممکن الوقوع معاملات اور احکام کا تعلق ہے تو واقعی اہل حدیث کی فقہ یا فقہ الحدیث میں اس کا ثبوت نہیں ملے گا۔ یہ خوبی فقہ العراق میں ہوگی۔ لیکن یہ در اصل فقہ نہیں۔ ائمہ حدیث کا مقام تو مصطلح فقہاء سے کہیں زیادہ ہے۔ فرضی صورتوں پر احکام مرتب کرنا بھی کوئی مشکل نہیں لیکن علم  ما لم يقع والجهل عما وقع اہل حدیث کے نزدیک اسے فقہ کہنا ہی درست نہیں۔ شاہ ولی اللہ چاہتے ہیں کہ مروجہ فقہ کو حدیث اور آثار سلف کی تائید حاصل ہو۔ اور ظاہریت خالصہ کو تفقہ اور قیاس جلی سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ہندوستان میں تحریک اہل حدیث کا مقصد صرف اسی قدر ہے، جسے مستقل طور پر گھبراہٹ کا پیغام سمجھ لیا گیا ہے۔ اور حضرات دیوبند اور ارباب بریلی دونوں اس مکتب فکر سے گھبرانے لگے۔ حضرات بریلی سے تو کوئی شکوہ نہیں کیونکہ وہاں پورا انحصار ہی جذبات اور چند نعروں پر ہے عوام کی پیدا کی ہوئی رسوم اور چند بدعات کا نام شریعت رکھ لیا گیا اور غلط قسم کے رکھ رکھاؤ کو ادب سے تعبیر کر لیا گیا ہے اور ان حضرات کے نزدیک یہی چیزیں کتاب وسنت کا نعم البدل ہیں۔ یہ حضرات توحید وسنت کی ٹھوس آواز سے ڈریں تو بجا ہے لیکن تعجب حضرات دیوبند سے ہے وہ بھی وہابی کے لفظ سے اس قدر گھبرائے کہ میدان چھوڑ گئے۔ سانحہ بالاکوٹ کے بعد ان حضرات کی رسمی تصوف کے ساتھ کچھ ایسی وابستگی ہوئی اور بیعت وارادت ان میں کچھ اس انداز سے آئی کہ یہ حضرات بریلی سے بہت قریب پہنچ گئے۔ اذکار اوراد میں بھی سنت کا معیاری مقام قائم نہ رہ سکا۔ نماز کے وقت اور ہیئت میں بھی تسکین اور اطمینان قریباً ختم ہوکیا اور خشوع انابت ذوق اور اطمینان برائے نام رہ گیا۔ یہ گراوٹ شاہ اسحاق رحمہ اللہ علیہ کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی لیکن بتدریج بڑھتی گئی توحید کا صحیح موقف بعض حضرات میں تو بے شک نمایاں رہا۔ لیکن اکثر ابناء دیوبند نے قریباً بریلویت کی چوکھٹ پر گھٹنے ٹیک دئیے اور جو قافلہ اقامت دین اور توحید وسنت کی سرپرستی کے لئے بالا کوٹ کے میدان میں فروکش ہوا تھا جس نے عہد کیا تھا کہ شاہ ولی اللہ کے
Flag Counter