Maktaba Wahhabi

202 - 236
کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ قاضی ابو بکر باقلانی کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی عزت ائمہ حدیث کی موافقت کی وجہ سے ہے۔ امام الحرمین ابو المعالی جوینی 478ھ اور امام غزالی 505ھ اشعری کے بعض اصولوں کی مخالفت کے باوجود ان کی عزت حدیث اور سنّت کی موافقت ہی کی وجہ سے ہے۔ فقہی فروع میں امام شافعی کے اتباع کی وجہ سے ان کو حدیث سے تعلّق ہوا اور علم کلام میں بھی سنت کی موافقت یا مخالفت کے تناسب ہی سے ان کا احترام کیا گیا۔ معیار حق حدیث اور ائمہ حدیث ہی قرار پائے ہیں۔ یہ عجیب ہے کہ وہ فقہ ودرایت سے خالی لیکن حق وباطل کا معیار بھی ٹھہریں۔ تقلید اور جمود کے اثرات مروجہ تقلید اور جمود نے صرف ائمہ حدیث ہی کو ایذا نہیں دی بلکہ اپنے مسلک پر جمود کی وجہ سے دوسرے ائمہ کو حق پر سمجھنے کے باوجود وہ ان کے اتباع سے انصاف نہیں فرما سکے۔ آپ اس سلسلہ میں اقتداء بالمخالف ہی کو لے لیجئے۔ یہ مسلمہ ہے کہ ائمہ اربعہ حق پر ہیں یہ چاروں نہریں ایک ہی دریا سے نکلی ہیں۔ یہ پانی ایک ہی منبع سے منقسم ہوا اور منبع کی طہارت پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ میزان شعرانی ملاحظہ فرمائیے۔ وہاں حوض کوثر کی تقسیم اور میزان اعمال کے وقت حضرات ائمہ کرام بڑی توجہ سے میزان کے کام کو ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ پل صراط کے پاس بھی اپنے اتباع کی رفتار کا بڑا غائر مطالعہ فرما رہے ہیں۔ قیامت کے محاسبہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعرانی رحمہ اللہ کی نگاہ میں ان حضرات کا موقف بھی انبیاء علیہم السلام کے قریب قریب ہے۔ اس احترام اور حق کے ساتھ اس وابستگی کے باوجود جب اقتداء بالمخالف کا سوال سامنے آیا تو متاخرین فقہاء بڑی احتیاط سے ایک دوسرے کا عمیق محاسبہ فرمانے لگے اور ایک دوسرے کا اس طرح محاسبہ شروع فرمایا جیسے ایک مسلم غیر مسلم کا محاسبہ کرتا ہے۔ حالانکہ ان فروعی اختلافات کے باوجود معاملہ میں کوئی دقّت نہیں تھی۔ شرح صدر سے کہا جاتا کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بلا تامل ایک دوسرے کی اقتداء کر سکتے ہیں۔ چاروں کو حق پر کہنے کے بعد نہ
Flag Counter