لے لیں۔ زید بن ثابت نے روک دیا وہ رُک گئے۔ لیکن حضرت ایک عالم جب دوسرے عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کر تا ہے، اس کا مقصد یا طمانیت ہوتا ہے ذہول کا علاج یا مزید تحقیق۔ صحیح بات معلوم ہونے پر ذہن اسے قبول کر لیتا ہے۔ بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے تقلید سمجھنا آپ ایسے الم کی زبان سے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ آخر تقلید جسے آپ نے ان لوکوں کے لئے اجازت دی ہے ’’جو قرآن وسنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘‘ یہ کون سا مقدس تحفہ ہے جسے آپ صحابہ کے لئے ثابت فرما رہے ہیں۔ ابن القیم کی زبان میں اس کی نوعیت جہالت کی ہے۔ ع العلم معرفة الهدى بدليله ما ذلك والتقليد يستويان إذ أجمع العلماء أن مقلدا للنا س كالأعمى هما أخوان عہدِ صحابہ میں تقلید شخصی مولانا نے اس عنوان کے تحت تین دلائل ذکر فرمائے ہیں۔ ان دلائل پر تنقیدی گزارشات سے پہلے تقلید شخصی کا مفہوم مولانا کے لفظوں میں سامنے رکھیں، اور غور فرمائیں کہ یہ دلائل مولانا کے مقصد کے لئے یہاں تک مفید ہیں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک عالم یا مجتہد کا معین کر لیا جائے اور ہر ایک مسئلے میں اس کی رائے اختیار کی جائے۔ پہلی دلیل إن أهل المدينة سألوا ابن عباس عن امرأة طافت ثم حاضت قال لهم تنفر قالوا لا نأخذ بقولك وندع قول زيد(بخاري مطبوعه أنصاري ج2 ص170) اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس سے دریافت فرمایا کہ طوافِ افاضہ کے بعد اگر عورت کو ماہواری ایام آجائیں آیا طواف وداع کے لئے بیت اللہ میں ٹھہرے یا وطن واپس چلی جائے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے انتظار کی ضرورت نہیں۔ وہ واپس چلی جائے۔ اہل مدینہ زید بن ثابت کے فتویٰ کی بناء پر یہ سمجھتے تھے کہ اسے طوافِ وداع تک ٹھیرنا چاہئے۔ انہوں نے اس پر اصرار کیا کہ زید کا فتویٰ درست ہے ہم آپ کی بات نہیں مانتے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا مدینہ کے اہل علم سے دریافت کرو۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |