Maktaba Wahhabi

113 - 236
فقہی فروع کا ماہر اور ائمہ فقہ کے اجتہاد و استنباط کا بہترین ترجمان دنیا سے ہمکلام ہو رہا ہے۔ کبھی وہ یوں گویا ہوا " فی الجملہ مسلک فقہاء محدثین پسند اوفتاد" ۔ دُور اندیش لوگوں نے جانا کہ مسلک سلف کا داعی، فقہی جمود کا محقق ونقاد قرون خیر کا پیغام لے کر دنیا کی رہنمائی کے لیے آ پہنچا ہے۔ غرض ہر گروہ نے اسے اپنا سمجھا۔ اور اسی سے استفادہ کی کوشش کی۔ وہ صحیح معنیٰ میں حکیم الامت تھا۔  شاہ صاحب افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لیے ایسی کوشش فرمائیں جس سے کسی ھنگامہ کے بغیر اپنے مقصد میں فائز ہو سکیں۔ لوگ امن کے ساتھ دین حق کو قبول کریں ۔ دین حق پورے سکون کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں پر قابض ہو جائے۔ شیطان کا لشکر پوری خاموشی سے اپنے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔ یعنی تصوف اعتدال پر آئے۔ فقہی جمود ذرا ڈھیلا ہو اور ما انا علیہ و اصحابی کے لیے صلح و آشتی سے راستہ صاف ہو جائے۔ دین کا فہم یقیناً ائمہ مجتہدین کے علوم و فیوض سے ہوگا۔۔۔۔لیکن وہ خود دین نہیں ہوں گے۔ دین کا اصل سرچشمہ بہرکیف اللہ کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو رہنا چاہیے۔ ائمہ مجتہدین کے مکاتب فکر رہنمائی کے فرائض انجام دیں گے، خود راہ نہیں بنیں گے۔ حجۃ اللہ البالغہ، مصفٰے اور مسوی، ازالۃ الخفاء وغیرہ صحف اس حکمتِ بالغہ، اس یسانت فکر اس اعتدال مزاج کا پتہ دیتے ہیں، جو حکیم وقت کو عطا فرمائے گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ انقلاب۔۔علم و حکمت اور کتاب و سُنّت کے احیاء اور اقامت دین کا مدرسہ قرار پائے اور سرزمین ہند اللہ کے نور سے جگمگا اُٹھے۔  ابلیس کی فوج: وقت کا حکیم امن کا خواہشمند ہو، درست ہے۔ لیکن شرپسند طاقتیں اسے کیوں کامیاب ہونے دیں۔ ان کے پروگرام کی کامیابی بدامنی میں ہے۔ کشت و خون میں ہے ، ہنگامہ آرائی میں ہے۔ یہ حضرات قرآنِ عزیز کے ترجمہ پر ناراض ہو گئے۔ قبرپرستی کی مخالفت سے لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ تعزیہ داری کو اسلام کا شعار ظاہر کیا جانے لگا۔ دنیا کو باور کرایا گیا کہ خدا کی کتاب کو ولی اللہ نہیں سمجھ سکتا۔ اس نے ترجمہ نہیں کیا۔ بلکہ بے ادبی کی ہے۔ انسان کا کہاں مقدور کہ وہ کتاب اللہ کے مقاصد کو پا سکے۔ ان مشکلات کے 
Flag Counter