Maktaba Wahhabi

171 - 236
فرمایا کرتے تھے۔ آپ حضرات اسی سطح پر آگئے۔ حافظوا على نياتكم میں إنما الأعمال بالنيات سے کوئی خاص زیادت نہیں۔ نیت بہرحال عمل کیلئے ضروری ہے۔ اس وقت بھی عوام اسے نماز کے واجبات سے سمجھتے ہیں۔ ابن قیم کی نیابت آج بھی ضروری ہے۔ قربانی نماز سے پہلے حضرت العلام نے یہ مسئلہ اس انداز سے لکھا ہے گویا حضرت مولانا معترضین کے موقف سے قطعی بے خبر ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ اہل حدیث گاؤں اور شہر دونوں میں عید واجب سمجھتے ہیں۔ انہیں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس مقام پر بھی اختلاف ہے، بلکہ قرآنی ا اختلاف اس کی فرع ہے۔ حدیث من ضحى قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلوة فقد تم نسكه(مسلم) یعنی جس نے نماز عید کے پہلے قربانی کی اس نے اپنی ذات کے لئے قربانی کی جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی درست ہے۔ اس حدیث کے مخاطب اہل حدیث کے نزدیک شہری اور دیہاتی سب لوگ ہیں۔ اس میں احناف کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر سے بہتر کوئی چیز نہیں: وهو كما ترى لا تقوم به حجة والتفصيل في سر من رأى في بحث الجمعة في القرى، للعلامة بقا غازي پوری مفقود الخبر کی بیوی مفقود الخبر کے مسئلہ میں قدماء احناف کو قدماء حنابلہ اور ابن حزم ایسے ظاہری حضرات کی حمایت بھی حاصل ہے یہ حضرات بھی قریباً وہی فرماتے ہیں جو قدماء احناف نے فرمایا۔ اس میں قابلِ غور مسئلہ عورت کے حقوق اور جذبات ہیں۔ قرآن کا ارشاد ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا نیز ایلاء میں چار ماہ سے زیادہ مرد کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن عزیز نے عورت کے حقوق اور جذبات کا پورا خیال رکھا ہے۔ محض علماء کی فقہی موشگافیوں کے پیش نظر اس بے چاری کو صبر کی تلقین
Flag Counter