Maktaba Wahhabi

170 - 236
تو ثابت نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی صریح حدیث نہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ﷫ نے فاقرءوا ما تيسر من القرآن سے استنباط فرمایا۔ حضرت امام کے استنباط کی وضاحت مولانا نے مناسب نہیں سمجھی۔ اس لئے اس کے متعلق گزارش کرنا مشکل ہے۔ البتہ احادیث میں صراحت موجود ہے کہ فاتحہ سب رکعات میں ضروری ہے۔ امام بیہقی نے جزء القراءۃ میں مسیء الصلاۃ کی حدیث کو کئی طریق سے روایت فرمایا ہے۔ اس میں فاتحہ کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں صراحت فرمائی ہے كذلك افعل في صلواتك كلها(ص12) پوری نماز اسی طرح ادا کر (یعنی مع سورہ فاتحہ) آپ نے ترمذی (ج1 ص44) سے جو اثر حضرت جابر کا نقل فرمایا ہے اس میں بھی یہ الفاظ مرقوم ہیں: يقول من صلى ركعة لم يقرأ فيها بأم القرآن (جو شخص ايك ركعت بھی ام القرآن کے بغیر پڑھے تو اس کی رکعت نہیں ہوگی مگر امام کے پیچھے) اس میں رکعت کی صراحت سے ظاہر ہے کہ قراءت ہر رکعت میں ہے۔ آپ کو اپنے حلقوں میں اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ امام شافعی کا حکم نصوص پر مبنی ہے۔ واقعی کوئی رکعت قراءۃ سے خالی نہیں ہونی چاہئے۔ زبان سے نیت جہاں تک خیال ہے اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ نیت دل کا فعل ہے اس کا زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ ائمہ اربعہ﷭ اس پر متفق ہیں۔ جس التزام سے یہ فعل کیا جاتا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوام کو اس غلطی پر متنبہ کیا جائے۔ یہ عجیب ہے کہ جناب جہلاء کے فعل اور عمل کی خواہ مخواہ ذمہ داری اٹھاتے بلکہ وکالت فرماتے ہیں۔ رہا انسانی دھندوں کا معاملہ سو زبانی نیت اور جہر بالقراءۃ وغیرہ میں بھی اس سے مخلصی نہیں ہوتی۔ اس کے لئے آپ ایک بدعت کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس سے پرہیز فرمائیے اور عوام کو ترغیب دیجئے وہ سنت پر عمل کریں۔ زبان کے لحاظ سے نیت کا تعلق جوارح سے نہیں۔ خصت النية في غالب الاستعمال بعزم القلب على أمر من الأمور. (مصباح المنير ج2 ص703) نیت کا لفظ عموماً دل کے عزم پر بولانا جاتا ہے: نويت نية ونواة عزمت (تہذیب الصحاح ج3 ص1082) اوپر کے علمی حلقوں سے عوام کی وکالت پر تعجب ہو رہا ہے۔ اس قسم کی وکالت عموماً بریلوی حضرات
Flag Counter