Maktaba Wahhabi

137 - 236
(فتح الباری ص 171) کہ آپ کے فتویٰ کے مطابق نص مل گئی۔ زید بن ثابت کے فتویٰ کی اہمیت ختم ہو گئی۔  متنازعہ فیہ تقلید کے متعلق خود جناب نے فرمایا " کسی ایک عالم کو معیّن کر لیا جائے اور ہر ایک مسئلے میں اس کی رائے اختیار کی جائے" (فاران ص 14 مئی 1965ء) ایک مسئلہ میں آپ نے زید بن ثابت کی تقلید اور پھر شخصی ثابت فرما دی۔ سبحان اللہ! جب معاملہ نص کی تلاش کا ہے تو "گناہ" یا "شرک" کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ادباً گذارش ایسا ذہین آدمی جو تقلید کو ایسی جگہ سے کشید کرتا ہے جہاں اس کا نام و نشان نہیں۔ جہاں حافظ ابن حجر اور حافظ بدر الدین عینی خاموش ہو گئے اور ان کو بھی تقلید کی نہیں سوجھی۔ معلوم نہیں آپ حضرات صدیوں پہلے گذرے ہوئے مجتہدین کے کیوں منت کش ہوتے ہیں اور اپنے متعلق آپ کو کیوں بدگمانی ہے کہ آپ میں کوئی صلاحیت نہیں۔ ہمت فرمائیے اور اپنے فہم و فراست پر بدگمانی نہ فرمائیے۔ اگر مجتہد مطلق نہ بن سکے تو تقلید سے بچ سکیں گے، ان شاء اللہ۔ وکم من عائب قولا صحیحا واٰ فته من الفهم السقیم ہاں تو حضرت زید بن ثابت کے فتویٰ پر اہل مدینہ کے اصرار کی وجہ پر بھی غور فرمائیے۔ اس وقت زید بن ثابت کے علم کی شہرت حضرت ابن عباس سے زیادہ تھی اور اس کے کئی وجوہ تھے۔ 1۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچے، زید بن ثابت کی عمر گیارہ سال کی تھی۔ حضرت ابن عباس سے یہ معمر تھے۔ حضرت ابن عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت آٹھ نو سال کے تھے۔ 2۔ حضرت زید بن ثابت کاتب وحی تھے اور مدت العمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معتمد عمومی کے طور پر کام کرتے رہے۔ عموماً بیرونی خط و کتابت ان کی معرفت ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اُنہوں نے عبرانی زبان پڑھی تاکہ یہود کی دھوکہ بازیوں کا خطرہ نہ رہے۔ 3۔ ان کی علمی قابلیّت اور دینی تجربہ اور علمی تبحر کی بنا پر اکابر صحابہ کی موجودگی میں حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا۔
Flag Counter