تیسری صدی تک تو اتفاق ہے کہ تقلید ائمہ کی پابندی کا رواج نہ تھا۔ بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے ارشاد کے مطابق اس کا عام رواج چوتھی صدی کے بعد ہوا۔ لیکن محققین ائمہ کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ اس وقت بھی بند نہیں ہوا۔ اس لئے امام ذہبی رحمہ اللہ کئی ائمہ کے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ وہ مجتہد تھے۔ کہیں فرماتے ہیں: كان لا يقلد أحدا، کہیں فرماتے ہیں: لم يكن يعلم أهل الرائى وغير ذلك ائمہ محققین کی فہرست مع قید سنین بقی بن مخلد (206ھ)، احمد بن عاصم (287ھ)، قاسم بن محمد اندلسی (276ھ)، حافظ ابن خزیمہ (310ھ)، علامہ ابن المنذر (318ھ)، حسین بن محمد سنجی (315ھ)، حافظ ابو یعلیٰ (346ھ)، حسن بن سعد قرطبی (331ھ)، ابن شاہین (385ھ)، حافظ محمد بن علی ساحلی (441ھ)، امام حمیدی (488ھ)، محمد بن طاہر مقدسی (507ھ)، امام عبدری (544ھ)، ابو زرعہ بن محمد (566ھ)، حافظ ابن الرومیہ (637ھ)، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (728ھ)، الحافظ مجد الدین فیروز آبادی صاحب قاموس (810ھ)، محمد یوسف ابو حیان اندلسی (745ھ)، شیخ شہاب الدین (951ھ)، سید یحییٰ بن حسین (1080ھ)، صالح بن محمد حمیدی مقبل (1108ھ)، عبد القادر بن علی البدری (1160ھ)، سید محمد بن اسمٰعیل امیر یمانی (1182ھ) ان ائمہ کے اسمائے گرامی اور سنین وفیات پر توجہ فرمائیے اور غور کیجئے کہ یہ حضرات ترکِ تقلید کے باوجود امام ہیں۔ ہم اور آپ نقل احادیث میں ان کے علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔ حدیث کے دفاتر میں ان کی نقل پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ استدلال اور فقہی فروع کے مآخذ میں ان ہی کے علم پر یقین کرتے ہیں۔ پھر آج اگر کوئی شخص ائمہ اربعہ رضوان اللہ علیہم سے کسی امام کی کلی طور پر تقلید نہ کرے تو اکابر اہل علم کی نظر میں وہ مجرم قرار پایا ہے۔ بریلی اور دیوبند والے اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے القاب سے ان لوگوں کو یاد فرمایا جاتا ہے۔ یہ مسلک بھی اپنی قدامت کے لحاظ سے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مسالک سے کسی طرح کم نہیں۔ بلکہ ان حضرات نے اپنے مسالک میں ائمہ حدیث ہی سے استفادہ کیا ہے۔ جہاں تک تاریخی شہادت کا تعلق ہے۔ خراسان، ایران، یمن، الجزائر، بربر اور اقصائے مغرب میں ابتداء ائمہ حدیث ہی کا مسلک رائج تھا۔ موجودہ فقہی مسالک کو بذریعہ حکومت یا دوسری وجوہ سے غلبہ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |