(4) جب کسی مسئلہ میں حدیث مل جائے تو کسی مجتہد اور امام کی پرواہ نہ کی جائے گی اور نہ کوئی اثر قابل قبول (5) جب پوری کوشش کے باوجود حدیث نہ ملے تو صحابہ اور تابعین کے ارشادات پر عمل کیا جائے گا اور اس میں کسی قوم اور شہر کی قید یا تخصیص نہیں ہوگی۔ (6) اگر جمہور فقہاء اور خلفاء متفق ہو جائیں تو اسے کافی سمجھا جائے گا۔ (7) اگر فقہاء میں اختلاف ہو تو زیادہ متقی اور ضابط کی حدیث قبول کی جائے گی، یا پھر جو روایت زیادہ مشہور ہو اسے لیا جائے گا۔ (8) اگر علم و فضل، ورع و تقویٰ اور حفظ و ضبط میں سب برابر ہیں تو اس مسئلہ میں متعدد اقوال تصوّر ہوں گے جس پر جی چاہے عمل کرے اس میں کوئی ہرج نہیں۔ نہ اس میں کوئی ضیق پیدا کیا جائے۔ (9) اگر اس میں بھی تسکین بخش کامیابی نہ ہو تو قرآن و سنت کے عموماتِ اقتضاء اور اشارات پر غور کیا جائے گا اور مسئلہ زیر بحث کے نظائر کے حکم کو دیکھا جائے گا اور حکم استخراج کیا جائے گا۔ اصول فقہ کے مروّجہ قواعد پر اعتماد نہ کیا جائے گا۔ بلکہ طمانیت قلب اور ضمیر کے سکون پر اعتماد کیا جائے گا جس طرح متواتر روایات میں اصل چیز راویوں کی کثرت نہیں بلکہ اصل شے دل کا اطمینان اور سکون ہے۔ یہ نو (9) اصول پہلے بزرگوں (صحابہ و تابعین) کے طریق کار سے ماخوذ ہیں (حجۃ اللہ البالغہ ص 119 جلد 2) اس وقت تحریک اہل حدیث ابتدائی چار سو سال تک تقلید شخصی اور جمود کم تھا بلکہ پہلی صدی میں آج کی مروجہ تقلید کا رواج ہی نہیں تھا۔ اواخر صدی میں امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما پیدا ہوئے تھے۔ پھر بتدریج ائمہ کے مسالک کا رواج ہوتا گیا۔ اس وقت کے اہل حدیث علماء کے سامنے اہم مسئلہ یہ تھا کہ: (1) لوگ قرآن عزیز اور سنت مطہرہ کی پابندی کریں۔ (2) اور ان کے سمجھنے میں اگر مشکل پیش آئے تو صحابہ اور تابعین کی روش پر اسے سمجھا جائے۔ فہم میں نہ جمود اور تقلید پیدا ہو، نہ آزادی اور آوارگی راہ پائے۔ بلکہ صحابہ کرام کے زمانہ اور ان کے فتووں میں وقت کے مصالح کی بناء پر وسعت قائم رہے۔ علماء کے فتووں کو قرآن و سنت کا قائم مقام نہ سمجھا جائے۔ حسن بن بشر معاذ سے نقل فرماتے ہیں اور معاذ امام اوزاعی سے: |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |