Maktaba Wahhabi

43 - 236
قال كتب عمر بن عبد العزيز لا رأي لأحد في كتاب الله وإنما رأي الأئمة فنها لم ينزل فيه كتاب ولم تمض به سنت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رأي لأحد من سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم (سنن الدارمي ص7) کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ہوتے ہوئے کسی شخص کی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ ائمہ کی آراء اسی وقت قابل توجہ ہیں جب نہ کتاب اللہ ہو نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرا اثر ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے خطبہ دیا: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں بھیجا۔ اور قرآن کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں فرمائ۔ آنحضرت کی زبان سے جو حلال ہے وہی حلال ہے اور جو آپ نے حرام ٹھیرا دیا وہی حرام ہے۔ یہ حکم تا قیامت ہے0 میں خود قاضی نہیں بلکہ آنحضرت کے فیصلوں کو نافذ اور جاری کرتا ہوں۔ میں پہلوں کا متفق ہوں۔ میں خود کچھ نئی چیز پیدا نہیں کر نا چاہئے میں تم سے بہتر نہیں ہوں لیکن مجھ پر تم سے ذمہ داری اور بوجھ زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت ضروری نہیں۔ کیا میں نے سنا دیا۔‘‘  (دارمی حوالۂ مذکور) ان آثار سے اس وقت کی ذہنی حالت کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے علماء کے ذہن پر کیا خطرات محیط ہیں۔ اتابع سلف پر اعتماد کے ساتھ جامد پابندی اور آوارگی دونوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ بدعت سے بھی پرہیز پیش نظر ہے اور اپنی حاکمانہ حیثیت سے بھی کوئی حکم منوانا پسند نہیں فرماتے۔ پوری توجہ اس طرف ہے کہ بدعت اور آوارگی نہ آنے پائے اور صداقت کی اشاعت جبر سے نہ ہو بلکہ ضمیر کی آواز اور محض اللہ کے لئے ہو۔ سنن دارمی کے ابتدائی ابواب پر غور فرمائیے: باب اجتناب أهل الأهواء والبدع والخصومة باب اجتناب الأهواء فضل العلم والعلماء باب التوبيخ لمن يطلب العلم لغير الله ان تمام ابواب اور سلف ال علم کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کے بعد ائمہ سلف کے
Flag Counter