اسی طرح کچھ بزرگ چند رسمیں اور چند نعرے لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اسلام کی خدمت کا دعویٰ فرماتے ہیں۔ اور ان رسموں کو اسلام اور ایمان کی بنیاد سمجھنا اور ان سے انکار یا ان پر انکار کو اسلام کی مخالفت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے منافی سمجھنا عجیب بات ہے۔ حالانکہ قرون خیر اور ائمہ اسلام، فقہاء محدثین کے آثار میں ان رسوم کا ذکر تک نہیں۔ اگر کہیں تھوڑا بہت پتہ چلتا ہے تو ان بزرگوں نے ان رسول کو نفرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اسلام ایسے فعال مذاہب کا انحصار چند رسموں اور نعروں پر ہو ضمیر اس سے اباء کرتا ہے۔ اسی طرح مروجہ تقلید اور جمود کا آغاز تو غالباً طبعی تاثر ہے جو ایک شاگرد استاذ سے اور تلمیذ شیخ سے اپنے دل میں محسوس کرتا ہے یہ طبعی اور قدرتی ہے۔ اس کے جواز یا عدمِ جواز کی بحث بے فائدہ ہے۔ یہ تاثر ناگزیر ہے اور یہ تاثر ہمیشہ بانداز تحقیق اور بحث ونظر کی راہ سے ہوتا ہے۔ اس میں جمود نہیں ہوتا۔ دوسرے ائمہ اجتہاد سے حق یا نفرت کے آثار اس میں نہیں پائے جاتے بلکہ ایک تحقیقی تاثر اور فکر ونظر کی راہوں میں کسی قدر ہم آہنگی اور ہمواری ہوتی ہے۔ ان فقہی فروع میں نہ حق کسی ایک میں محصور ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرے اہل تحقیق سے نفرت اور بغض ہوتا ہے اور خود ائمہ رحمہ اللہ نے اپنے متعلق کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ حق صرف ہمارے دامن سے وابستہ ہے اور نہ ہی یہ تاثر دیا ہے کہ ہماری باتوں کو بلا دلیل محض خوش فہمی اور عقیدت کی بناء پر قبول کیا جائے۔ انبیاء علیہم السلام فکر ونظر کی دعوت دیتے تھے ان کے اتباع تقلید وجمود کی دعوت جیسے دے سکتے تھے۔ میری رائے میں یہ تینوں مقام اس قدر ظاہر اور واضح ہیں کہ ان پر کسی طویل بحث کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود دنیا میں ایسے حضرات موجود ہیں جو انکار حدیث کو بطور تحریک چلانا چاہتے ہیں ان کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفکر سککوت اجتہاد دین میں حجت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی آیت کی تفسیر فرمائیں ہمیں حق ہے ہم ان کے خلاف تفسیر کریں اور صرف اپنی تفسیر کو صحیح سمجھیں۔ لیکن اس شناعت کے لئے عنوان یہ رکھا گیا ہے کہ قرآن مکمل ہے اور اسناد کی وجہ سے حدیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہی حال قریباً بعض دوسرے بزرگوں کا ہے وہ بدعی رسوم اور مشرکانہ عادات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بزرگوں کے ساتھ ربط وعقیدت کے نام دیتے ہیں اور ائمہ سے علمی استفادہ کا نام تقلید رکھ دیا گیا ہے وبينهما مفاوز تنقطع فيها أعناق الإبل گذشتہ ایام میں کسی ضرورت یا کسی تاثر کے ماتحت میں نے چند مضامین ’الاعتصام‘ میں لکھے جو بعض |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |