Maktaba Wahhabi

209 - 236
سے کوئی طریقہ امامت اور اقتدا کے لیے شرط نہیں۔ اب مٹی کے استعمال کو ضروری قرار دینا تعجب ہے۔ یہ ذہنی بغض اور عصبیت کی ترجمانی تو کر سکتا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ یہ ہمارے ملک کی پیداوار ہے۔ فن طہارت یا وھم 1953ء تحریک ختمِ نبوت کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طہارت اور اس کی مختلف اقسام اور اس پر اصرار کا تجربہ ہوا۔ بعض حضرات پیشاب سے فارغ ہو کر ازاربند منہ میں تھام لیتے اور کافی دیر ٹہلتے رہتے اور بائیں ہاتھ سے ڈھیلا استعمال کرتے اور اس میں خاص قسم کی حرکات فرماتے، بیس منٹ آدھ گھنٹہ تک یہ کھیل جاری رہتا، پھر یقین ہوتا کہ اب طہارت ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک یہ پورا ڈرامہ نہ کیا جائے طہارت مکمل نہیں ہوتی۔ بعض حضرات مٹی کے ساتھ دونوں رانوں سے بھی طہارت میں کافی مدد لیتے وہ بائیں ہاتھ سے مسلنا کافی نہیں سمجھتے تھے۔ بعض حضرات اس اثناء میں کئی کئی دفعہ ازار بند کے اندر جھانکتے مٹی کو ملاحظہ فرماتے وہ اسی مشق میں مٹی کا خشک ہونا بھی ضروری خیال فرماتے۔ بعض حضرات بڑے اہتمام سے ڈھیلے بناتے اور خاص ترکیب سے بناتے کئی کئی دن خشک ہونے کے لیے دھوپ میں رکھے رہتے اور تحفہ کے طور پر یہ ڈھیلے اس قسم کے وھمی اتقیاء میں تقسیم فرماتے اور وہ بھی اسے لے کر بہت ممنون ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب وہم پرستی ہے اس میں کوئی چیز نہ حنفی مذہب میں ضروری ہے نہ باقی ائمہ میں ۔ یہ وھم کا مرض ہے جو اس میں مبتلا ہو وہ تسکین قلب کے لیے مجبور ہے جو چاہے کرے۔ لیکن دوسرے کو اس وہم پرستی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ عموماً یہ مرض کیمبل پور، ہزارہ، راولپنڈی کے لوگوں میں ہوتا تھا یا پھر یو-پی ، سی-پی کے حضرات میں۔ خصوصاً وہ لوگ جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہل حدیث کی اقتداء ان حضرات کے نزدیک اس وقت دُرست ہو سکتی ہے جب وہ طہارت کے ان فنون میں مہارت پیدا کریں۔ پھر شاید اس کی سند حاصل کریں اور اس وھم میں بھی مبتلا ہوں۔ ہمارے اہل حدیث حضرات میں بھی بعض حضرات پانچ پانچ چھ چھ لوٹے
Flag Counter