Maktaba Wahhabi

38 - 236
گیا حالانکہ آیت میں بالغہ اور نابالغہ کی نہ تخصیص ہے نہ شرط۔ ایک اصل کی حمایت نے قرآن وسنت دونوں سے تعلق دھیلا کر دیا۔ اگر آیت میں عورت کو خصوصیت سے نکاح کا اختیار دیا گیا ہے تو نابالغہ کے استثناء کے لئے کونسی آیت آئی ہے۔ بلا وجہ ترجیح کے لئے کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ صاحب فصول الحواشی بڑی متانت سے فرماتے ہیں: ونحن تركنا الخبر الواحد بمقابلة الخاص من الكتاب ص26 ہم نے قرآن حکیم کے خاص حکم کے بالمقابل خبر واحد (حدیث اشتراط ولی) کو چھوڑ دیا۔ اور نابالغہ کے متعلق پھر اسی خبر واحد سے استفادہ فرما لیا گیا اور مرد کے قبول کو بھی مان لیا گیا۔ حلانکہ آیت تنكح میں مرد کی قبولیت کا بھی ذکر نہیں۔ اسی طرح گواہوں کی ضرورت بھی ماں لی گئی حالانکہ آیت میں شہود کا بھی کوئی تذکرہ نہ تھا۔ اس آیت کا مقصد گویا فقط ولی کی ضرورت کو توڑنا تھا اور بس۔ شاہ صاحب اس صورتحال پر کیسے مطمئن ہو سکتے تھے۔ جہاں اصول کا یہ حال ہو وہاں فروع تو بہرحال اس پر متفرع ہوں گی۔ ایک اور مثال حرمت رضاع کے متعلق قرآن عزیز نے مطلقاً: فرمایا: وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ(النساء:23) تمہاری رضاعی مائیں بھی تم پر حرام ہیں۔ احناف اور موالک فرماتے ہیں کہ ایک قطرہ بھی اگر کسی کا دودھ پی لیا ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ قرآن عزیز نے رضاع میں کوئی مقدار معین نہیں فرمائی۔ اس لئے حرمت کے لئے ایک گھونٹ پینا اور دو سال پینا برابر ہے۔ ائمہ حدیث اور شوافع کا خیال ہے کہ حدیث میں خمس رضعات موجود ہے اگر اس سے کم دودھ پیا جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ امام احمد کا رجحان بھی اسی طرح معلوم ہوتا ہے۔ احناف فرماتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اس سے قرآن کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔ اس لئے حدیث سے صرف نظر کیا جائے گا اور قلیل وکثیر رضاع سے حرمت ثابت ہوجائے گی۔ حالانکہ صورت اس طرح نہیں۔ اولاً یہاں تخصیص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ قرآن عزیز کے اطلاق کے ساتھ قید لگائی گئی ہے۔
Flag Counter