Maktaba Wahhabi

37 - 236
اس حدیث سے ولی کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے مگر آیت کے مقابل یہ حدیث قابل قبول نہیں آیت اس تشریح کی محتاج نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نکاح کے انعقاد میں چار شخصیتوں کو دخل ہے: ناکح، منکوحہ، ولی، گواہ۔ لیکن حصر کی کوئی دلیل نہیں۔ ان چاروں سے کوئی بھی دوسرے سے مستغنی نہیں کر سکتا اپنے اپنے فرائض کے لحاظ سے سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر تنكحکی نسبت فاعلی کا اثر ولی پر پڑ سکتا ہے تو ناکح اور شاہد پر بھی پڑنا چاہئے۔ عورت کو اس استدلال کے مطابق نکاح میں مختار مطلق ہونا چاہئے نہ خاوند کی رضا کی ضرورت ہو گی نہ گواہ کی۔ حالانکہ قرآن عزیز میں نکاح کا فاعل کئی جگہ مردوں کو قرار دیا گیا: فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ (النساء: 3) وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ (النساء: 22) اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ (الاحزاب: 49) وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ (البقرہ: 221) وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ (الممتحنہ: 10) فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ (النساء: 25) ان تمام آیات میں نکاح کا فاعل مردوں کو قرار دیا گیا ہے۔ اگر فاعلیت سے حصر پر استدلال کیا جائے تو قرآن میں تعارض ہوگا کہیں عورت کو مختار مطلق بنایا گیا ہے کہیں مرد کو۔ نکاح میں دو گواہ معاملہ کے لحاظ سے بھی ضروری ہیں اور حدیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے حتى تنكح زوجا غيره کی تخصیص حدیث شہادت پر بھی اثر انداز ہونی چاہئے۔ یا پھر ولی پر بھی اثر انداز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر بالغہ کو تو اس آیت کی بناء پر مختار سمجھا گیا لیکن نا بالغہ کو اس قدر بے بس کر دیا گیا کہ اس میں باپ اور دادا کی ولایت کو جبری قرار دیا اور اس بے چاری مسکینہ سے خیار بلوغ کا حق بھی چھین لیا
Flag Counter