Maktaba Wahhabi

195 - 236
ان کی نماز اقتداء سب مشتبہ ہے اور افسوس ہے کہ غیر مسلم حنفیوں کی آج کل بہت کثرت ہے ۔ پگڑی پر مسح سر پر مسح کرنا فرض ہے ۔ احناف اس سے چوتھائی سر مراد لیتے ہیں ۔ کیونکہ حدیث میں مسی علی ناصیتہ صراحۃ آیا ہے اور ناصیہ سے مراد ان کے ہاں ربع سر ہے ۔ شوافع کا خیال ہے کہ سر کی طرف سے کم از کم چند بالوں کا مسح ہو جائے ۔ موالک پورے سر کا مسح ضروری سمجھتے ہیں ۔ حدیث میں مسح کی تین صورتیں مروی ہیں ۔ [۱] پورے سر کا مسح [ ۲ ] سر کے بعض حصے پر اور کچھ پگڑی پر [ ۳ ]پوری پگڑی پر ۔ احناف کا معمول احادیث میں بصراحت موجود نہیں ۔ صرف مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو مختصر ہے ۔ اور صحیح مسلم میں دونوں روایتیں موجود ہیں ۔ قرآن کے اطلاق پر صرف موالک کا عمل ہے ۔ ایک توضیح احناف نے کی اور پورے سر کو چوتھائی کرایا اور شوافع نے چند بال سے اس کی تفسیر کی ۔ یہ چیزیں تو گوارا ہیں ۔ آپ بھی حق پر شوافع بھی حق پر اور موالک بھی حق پر ۔ اور اہل حدیث اگر سنت صریح کے مطابق پگڑی پر مسح کریں تو معتوب ۔ اب حدیث سنیے ۔ عن عمرو بن امیة الضمری قال راَیت النبی صلی اللہ علیه وسلم یمسح علی عمامته وخفیه (صحیح بخاری )  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا ۔ امام نووی فرماتے ہیں: ذھب  احمد بن حنبل الی جواز الاقتصار علی العمامة ووافه علیه جماعة عن السلف  ( مسلم مع نووی ، ص ۱۲۴ ج ۱ )امام احمد بن حنبل صرف پگڑی پر مسح جائز سمجھتے ہیں ۔ اور سلف سے ایک جماعت ان کے ساتھ متفق ہے ۔ حدیث مسح علی العمامۃ حضرت بلال ، مغیرۃ بن شعبہ ، حضرت سلیمان اور ثوبان رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے ۔ اب آپ سوچ لیں کہ وہابیوں کے ساتھ کون بزرگ محروم الاقتداء تصمد کرتے ہیں ع تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں مولانا !  معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت فداہ ابی وامی سخت قوم کے وہابی تھے ۔ بریلی اور لاہور کے ارباب فکر سوچ لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بھی نماز کا بیڑا غرق کا فتوی صادر فرما سکیں تو اپنے بزرگوں کی وراثت میں دار الندوہ کی چابیاں آپ حضرات کے حوالہ کر دی جائیں گی اور حقدار
Flag Counter